کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ مشابہت کی صورتیں

بسم الله الرحمن الرحيم

کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ

مشابہت کی صورتیں

مشابہت کی بعض شکلیں یہ ہیں :

(1) کافروں کی عید میں حاضر ہونا اور عیدوں کے میلوں میں شریک ہونا ۔

یہ صورت پہلے بھی پیش آتی رہی ہے اور آج بھی بہت سے مسلمان کافروں کی قدیم عیدوں میں انکے ساتھ شریک ہوتے رہے ہیں ، جیسے عیدمیلاد مسیح علیہ السلام یا دیگر وہ عیدیں جنہیں انہوں نے ایجاد کر رکھا ہے، جیسے عید عمال {یوم مزدوراں } خواہ انکے یہاں ان عیدوں کی کوئی دینی بنیاد ہو یا نہ ہو ،جیسے عید حب { عید عاشقاں } ہے ۔

کافروں کی عیدوں میں حاضری اور اس میں ان کی مشابہت کی حرمت پر علماء کا اجماع واتفاق رہا ہے ، تمام علمائے احناف ، مالکیہ ،شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مسلک ہے

( اقتضاء الصراط المستقیم : ٥٢٤٢، احکام اہل الذمہ :٧٢٢٢ )

جسکی بہت ساری دلیلیں ہیں :

{ أ} جن دلائل کی بنیاد پر کافروں کی مشابہت سے روکا گیا ہے ان کا کچھ حصہ گزرچکا ہے۔

{ب} صحابہ و تابعین رضوان اللہ علیہم کے زمانے میں اس پر اجماع رہا ہے کہ کافروں کی عیدوں میں حاضر ی جائز نہیں ہے ، اسکی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے منقولٍ(اہل کفر کے ساتھ معاہدہ کی ) ان شرطوں سے بھی ہوتی ہے جن پر صحابہ کرام اور بعد کے فقہاء کا اتفاق رہا ہے کہ اہل کتاب کے ذمی ( ذمی سے مراد وہ غیر مسلم ہے جو اسلامی حکومت کا مستقل شہری ہو اور باقاعدہ اسکے نظام کا تابعدار ہو ) حضرات دارالاسلام میں اپنی عیدوں کو علی الاعلان نہ منائیں گے ، تو جب مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے کہ کافروں کو اپنی عیدوں کے ظاہر کرنے سے روکا جائے تو انکی عیدوں کو اپنانا کیسے جائز ہو سکتا ہے ، کیا مسلمانوں کا ان عیدوں کو منانا کافروں کے اظہار سے برا نہیں ہے ؟

{ ج } حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ عجمیوں کی زبان نہ سیکھو ( یعنی بغیر ضرورت کے ورنہ اگر ضرورت ہوتو { کوئی حرج نہیں ہے } چنانچہ اللہ کے رسول ۖ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو یہود کی سریانی زبان سیکھنے کا حکم دیا جسے انہوں نے سترہ دن میں سیکھ لیا تھا ، دیکھئے : مسنداحمد :١٨٥٥ ، مستدرک الحاکم : ٤٢٢٣ ، الطبرانی الکبیر :٤٩٢٨ ، وغیرہ .سیراعلام النبلاء کے محقق لکھتے ہیں کہ اسکی سند صحیح ہے ، سیر اعلام النبلاء :٤٢٩٢ ) نہ انکی عید کے دنوں میں انکے کنیسے (عبادت گاہ ) میں داخل ہو ، کیونکہ ان پر اللہ تعالی کا غضب نازل ہورہا ہوتا ہے ۔

( مصنف عبد الرزاق : ١٦٠٩ ، السنن الکبری : ٩ ٢٣٤ )

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کافروںکی زبان سیکھنے اور انکی عیدکے دنوں میں انکے گرجا گھروں میں جانے سے منع فرمایا تو انکے مخصوص کاموںکو انجام دینے ، یا انکے دین میں شامل کاموں کے بارے میں کیا کہا جائیگا ، کیا عمل میں موافقت زبان کی موافقت سے زیادہ بری نہیں ہے ؟ کیا عید سے متعلقہ بعض کاموں کا انجام دینا عید کے دن انکے پاس جانے سے زیادہ برانہیں ہے . اور جب انکے { غلط } اعمال کی وجہ سے انکی عید کے دنوں میںان پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے توبتلائیے انکے کاموں میں یا بعض کاموں میں شریک ہونے کا کیا حکم ہوگا ؟کیا اس طرح وہ اپنے آپکواللہ کی سزا کا مستحق نہیں بنارہا ہے ؟

(الاقتضاء : ٤٥٨١ )

امام مالک رحمہ اللہ کا فرمان ہے : عیدمنانے کیلئے جس کشتی میں کافر سوار ہوں اس پر سوار ہونا مکروہ ہے ، کیونکہ ان پر غضب الہی اور لعنت کا نزول ہورہا ہوتاہے ۔

(الاقتضاء : ٤٥٨١ )

( 2 ) کافروں {کی عید سے متعلقہ } میلوں کو مسلمانوں کے ملکوں میں منتقل کرنا :

ایک شخص کافر ملکوں میں انکی عید میں حاضر ہوتا رہا اور جہالت ، ایمانی کمزوری اور کم علمی کی وجہ سے انکے میلے اسے اچھے لگے ، پھر اس تأثر و حسن منظر نے اسے اس بات پر ابھارا کہ اس نے ان عیدوں یا ان سے متعلقہ کاموں کو مسلمانوں کے ملک میں منائے ، جیسا کہ آج کل اکثر مسلمان ملکوں میں نئے سال یا یوم پیدائش (Birth Day) جیسی عیدوں کا اہتما کیا جارہا ہے ، یہ بھی مذموم مشابہت ، حرام میں مشارکت اور ضلالت و گمراہی کی طرف دعوت کی ایک شکل ہے حالانکہ نبی ۖ کا فرمان ہے : من دعا الی ضلالة کان علیہ من الاثم مثل آثام من تبعہ ، لا ینقص ذلک من آثامھم شیئا ۔

( صحیح مسلم : ٢٦٧٤ ، سنن ابودائود : ٤٦٠٩ ، سنن الترمذی : ٢٦٧٤ ،بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ )

جس نے کسی گمراہی کے کام کی طرف دعوت دی تو اسکے اوپر ان تمام لوگوں کا گناہ ہوگا جو اس گمراہی میں اسکی پیروی کرینگے اور انکے گناہ میں بھی کوئی کمی واقع نہ ہوگی ۔

(3) کافروں کی عیدوں سے متعلقہ خاص کاموں میں انکی موافقت :

بسااوقات بعض مسلمانوں کو کافروں کی عید میں حاضری تو میسر نہیں آتی البتہ { ایسے موقعوں پر } یہ حضرات انہیں جیسا عمل کرتے ہیں ، یہ بھی حرام اور مذموم مشابہت میں داخل ہے ۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کیلئے حلال نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ایسے کام میں کافروں کی مشابہت اختیار کریں جو انکی عیدوں کے ساتھ خاص ہے ، نہ کھانے میں ، نہ پہننے میں ، نہ نہانے میں ، نہ آگ جلانے میں اور نہ ہی طعام و شرا ب اور عبادت وغیرہ سے متعلقہ کسی عادت کی تبدیلی میں ، نیز ایسے موقعہ پر دعوت کرنا جائز ہوگا اور نہ ہدیہ و تحفہ پیش کرنا اور نہ کسی ایسی چیز کی تجارت جائز ہوگی جس سے وہ اپنی عیدوں میں مدد حاصل کریں ، اور نہ ہی بچوں وغیرہ کو یہ اجازت دی جائے گی کہ وہ انکی عیدوں کا کھیل کھیلیں یا زیب و زینت کا اظہار کریں ۔

خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کیلئے جائز نہیں ہے کہ کافروں کی عیدکے موقعہ پر انکے کسی بھی مخصوص کام کی نقل کریں ،بلکہ کافروں کی عیدکا دن مسلمانوں کے نزدیک عام دنوں کی طرح ہونا چاہئے ۔ ( اقتضاء الصراط المستقیم )

امام ابن التُرکمانی حنفی رحمہ اللہ بعض ایسے کام کے ذکر کرنے کے بعدجنہیں مسلمان عیسائیوں کی عید کے موقعہ پر کرتے ہیں جیسے کھانے پینے میں فراخی اور بچو ں کو لیکر {سیر و تفریح کیلئے } نکلنا وغیرہ ، لکھتے ہیں کہ بعض علمائے احناف نے کہا کہ ان کاموں کو جو شخص کرتا ہے اور اس سے توبہ نہیں کرتا تو وہ انہیں کی طرح کافر ہے ، اور بعض مالکی علماء کا قول ہے کہ جس نے ” نیروز ” کے دن تربوز توڑا گویا اس نے ُسُور ذبح کیا ۔

(اللمع فی الحوادث وا لبدع : ٢٩٤١ )

( 4 ) تحفہ و ہدیہ پیش کرنا ، انکی عیدوں کے موقعہ پر خرید و فروخت میں انکے ساتھ تعاون وغیرہ :

حضرت ابو حفص حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : جس نے اس { نیروز کے } دن کی تعظیم میں کسی مشرک کو ایک انڈا بھی ہدیة پیش کیا تو اس نے اللہ تعالی کے ساتھ کفر کیا ۔

( فتح الباری : ٥١٣٢ )

شیخ الاسلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ { مشہور مالکی امام عبد الرحمن } ابن القاسم رحمہ اللہ نے مسلمان کے لئے یہ نا پسند کیا ہے کہ وہعیسائیوںکی عید کے موقعہ پر بدلہ کے طور ہدیہ پیش کرے ، انکا خیال ہیکہ اسمیں انکے عید کی تعظیم ہے اور کفر کے کام میں انکی مدد ہے ، کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمانوں کیلئے یہ جائز نہیں ہے کہ عیسائیوں کی عید میں کام آنے والی کوئی چیز بیچیں ،نہ گوشت ، نہ سالن ، نہ کپڑا ، نہ ہی ایسے موقعہ پر انہیں اپنا جانور ادھار دیں ، اور نہ ہی عید سے متعلق کسی کام میں ان کی مدد کریں ، کیونکہ یہ انکے شرک کی تعظیم اور کفر پر انکی مدد ہے ، { مسلمان } حکمرانوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کو اس سے روکیں ، امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ کا یہی قول ہے ، اور مجھے معلوم نہیں ہیکہ کسی امام نے اس بارے میں انکی مخالفت کی ہو۔ ( اقتضاء الصراط المسقیم : ٥٢٧٢ )

(5) کافروں کی عید میں مشابہت کرنے والے مسلمان کے ساتھ تعاون :

شیخ الاسلام رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

جس طرح ہم کافروںکی انکی عید میں مشابہت نہیں کریں گے اسی طرح جو مسلمان ان کی مشابہت کررہا ہے اس بارے میں اسکی مدد بھی نہیں کریں گے بلکہ اس سے اسے روکا جائیگا ، چنانچہ اگر کوئی شخص کافروں کی عید کے موقعہ پر کسی ایسی دعوت کا اہتمام کرتا ہے جو عام حالات سے مختلف ہے تو اس دعوت کو قبول نہ کیا جائیگا اور عام حالات سے ہٹ کرانکی عید کے موقعہ پر کوئی ایسا تحفہ پیش کررہا ہے جو عام حالات میں نہیں پیش کرتا تو یہ تحفہ قبول نہ کیا جائیگا ، خاص کر اگروہ ہدیہ اس قسم کا ہو جس سے کافروں کی مشابہت میں مدد مل رہی ہو ، جس کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں ، نیز کوئی مسلمان کوئی ایسی چیز جیسے کہ لباس یاکھانا وغیرہ مسلمانوں کے ہاتھ بھی نہ بیچے گا جس سے کافروں کی مشابہت پر مدد لے ، کیونکہ اس صورت میں غلط اور غیر شرعی کام پر تعاون ہوگا ۔

(اقتضاء الصراط المستقیم : ١ ٥١٩ ، ٥٢٠ )

(6 ) کافروں کو عید کی مبارک باد پیش کرنا :

امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں : شعائر کفر سے متعلقہ کاموں پر مبارکباد پیش کرنا باجماع امت حرام ہے، مثلا کافروں کی عید اور روزہ کی مناسبت سے یہ کہتے ہوئے مبارکباد پیش کرنا کہ آپ کو عید مبارک ہو ، یہ عید تمہارے لئے خوش آئند ہو وغیرہ وغیرہ، ایسا کہنے والا اگر کافر ہونے سے بچ بھی جائے لیکن حرام کام کا مرتکب ضرور ہوگا ،بلکہ ایسا کرنا شراب پینے ، قتل کرنے اور زنا کاری پر مبارک باد پیش کرنے سے بھی زیادہ بڑا گناہ اور رب کی ناراضگی کا سبب ہے ، بہت سے لوگ جنہیں دین کی قدر معلوم نہیں ہے وہ ایسے کاموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ یہ نہیں جانتے کہ کتنے بڑے گناہ کاارتکاب کررہے ہیں ، اس لئے جو شخص گناہ ، بدعت اور کفر کی مناسبت سے کسی بندے کو مبارکباددے رہا ہے وہ اپنے آپ کو اللہ کے غضب اور ناراضگی کا مستحق بنارہا ہے ، { ذرا سوچیں کہ } اہل زہد و ورع علماء ظالم بادشاہوں کو انکی تخت نشینی کی مناسبت اور جاہلوں کو قضاء و تدریس اور فتوی نویسی کے منصب حاصل کرنے کی مناسبت سے مبارکبادی پیش کرنے سے اس لئے بچتے تھے کہ کہیں اللہ کے غضب کا شکار نہ ہوجائیںاور اسکے نزدیک بے وقعت نہ ہو جائیں ۔

( احکام اہل الذمہ : ٤٤١١ ، ٤٤٢ )

( 7 ) کافروںکی عبادت والے ناموں اور اصطلاحوں کا استعمال :

(ذرا غور کریں ) اگر بغیر ضرورت صرف مشابہت کی غرض سے کافروں کی زبان استعمال کرنا منع ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان گزرچکا ہے تو انکی عید کا نام یا انکے شعائر کی اصطلاحوں کا استعمال بدرجۂ اولی ممنوع ہوگا ، چنانچہ امام بیہقی رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لفظ ” نیروز ” کا استعمال ناپسند کیا ہے، بلکہ اسے بدلکر” فیروز ”سے تعبیر کرتے تھے ۔

(السنن الکبری : ٢٣٥١ )

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کافروں کی خاص عید کانام لینے میں انکے ساتھ موافقت کو پسند نہیں فرمایا تو انکے ساتھ عمل میں مشابہت کیونکر جائز ہوسکتی ہے ؟

(اقتضاء الصراط المستقیم : ٤٥٩١ )

{ ماخوذ از : کتاب یوم عاشقاں ، مطبوعہ از : جالیات الغاط }

ختم شدہ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں