بسم الله الرحمن الرحيم
کافروں کی عید میں انکی مشابہت کا حکم ہمارے دین کے اہم اصولوں میں سے ایک اصول یہ ہے کہ موالات اسلام اور مسلمانوں سے ہو اور معادات و براء ت کفر اور کافروں سے رہے ، کفر و کافروں سے براء ت کا لازمی نتیجہ ہے کہ مسلمان اہل کفر سے ممتاز رہے ، دین پر اپنی ثابت قدمی میں عزت اور اپنے اسلام پر فخر محسوس کرے . قرآن و حدیث میں ایسی بہت سی آیات و احادیث وارد ہیں جو اہل کفر کی مشابہت سے منع کرتی اورواضح لفظوں میں بیان کرتی ہیںکہ وہ لوگ گمراہی پر ہیں ،اسلئے جس شخص نے بھی ان سے مشابہت کی اس نے گمراہی میں انکی تقلید کی ، ارشاد باری تعالی ہے : ثُمَّ جَعَلْنَاکَ عَلَی شَرِیْعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہَا وَلَا تَتَّبِعْ أَہْوَاء الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ { الجاثیہ : ١٨ } پھر ہم نے آپ کو دین کی ظاہری راہ پر لگادیا ، سو آپ اس پر جمے رہیں اور نادانوں کے خواہش کی پیروی میں نہ پڑیں ۔ نیز فرمایا : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء ہُم بَعْدَ مَا جَاء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَ اللّہِ مِن وَلِیٍّ وَلاَ وَاق{ الرعد : ٣٧ } اور اگر آپ نے انکی خواہشات کی پیروی کرلی اسکے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے تو اللہ تعالی کے عذابوں سے آپ کو کوئی حمایتی ملے گا اور نہ بچانے والا ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہیکہ کافروں کے ساتھ مشابہت انکے ساتھ محبت و دوستی کا بڑا عظیم سبب ہے ، اور یہ چیز { یعنی ان سے محبت ودوستی } کفر و اہل کفر سے براء ت کے منافی ہے حالانکہ یہ براء ت کلمۂ” لاالہ الا اللہ ”کی عملی تصدیق کا بڑا اہم تقاضا ہے ، اسی لئے اللہ تبارک و تعالی نے مسلمانوں کو انکے ساتھ موالات و دوستی سے منع فرمایا اور ان سے موالات کو انہیں جیسا ہوجانے کا سبب قرار دیا ہے ۔ { العیاذ باللہ } ارشاد باری تعالی ہے : یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَِنَّہُ مِنْہُمْ ۔ { المائدة : ٥١ } اے ایمان والو! تم یہود ونصاری کو دوست نہ بنائو ، یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کریگا وہ بیشک انہی میں سے ہے ۔ ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے : لَا تَجِدُ قَوْماً یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ یُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَلَوْ کَانُوا آبَاء ہُمْ أَوْ أَبْنَاء ہُمْ أَوْ ِخْوَانَہُمْ أَوْ عَشِیْرَتَہُم{ المجادلہ :٢٢} اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو آپ اللہ اور اسکے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہوئے ہر گز نہ پائیں گے گو وہ انکے باپ یا انکے بیٹے یا انکے بھائی یا ان کے کنبہ کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ( ظاہری ) مشابہت باطنی محبت و دوستی اور موالات کا سبب بنتی ہے ۔ ( اقتضاء الصراط المستقیم : ٤٨٨١ ) نیز سورہ ٔمجادلہ کی مذکورہ آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے یہ واضح کردیا کہ کوئی ایسا مومن نہیں ہے جو کافروں سے محبت رکھے ، اسلئے جو شخص کافروں سے محبت رکھتا ہے وہ مومن نہیں ہے اور چونکہ ظاہری مشابہت سے دلی محبت کا گمان ہوتا ہے لہذا حرام ہوگی ۔ (اقتضاء الصراط المستقیم : ٤٧٠١ ) ایک اور جگہ لکھتے ہیں : دین ربانی اور آسمانی شریعتوں کے مٹ جانے اور کفر و گناہ کے کاموں کے غلبہ کا اصل سبب کافروں کی مشابہت ہے جس طرح کہ ہر بھلائی کی اصل بنیاد نبیوں کی سنت کی پیروی ، انکی شریعت پر جمے رہنا اور اسکی حفاظت کرنا ہے ۔ ( اقتضاء الصراط المستقیم : ٣١٤١ ) کافروں کی عید میں ان سے مشابہت کی حرمت کے دلائل ( ١) اللہ تبارک و تعالی اپنے مومن بندوں کی بعض لائق ِ ستائش خوبیاں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : وَالَّذِیْنَ لَا یَشْہَدُونَ الزُّورَ وَِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا کِرَاماً ۔ { الفرقان : ٧٢ } اور جو لوگ زور { باطل اور جھوٹے کام } میں شریک نہیں ہوتے اور اگر لغو و کھیل کی باتوں پر گزر ہو تو شرافت سے گزرجاتے ہیں ۔ حضرت مجاہد ، حضرت ضحاک رحمھما اللہ جیسے عظیم مفسرین نے اس آیت میں وارد لفظ ” زور ” کی تفسیر مشرکوں کی عید سے کی ہے ، حضرت عمرو بن مرہ رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : امور شرک پر اہل شرک کی مدد نہ کرو اور نہ ہی انکے ساتھ میل جول رکھو ، حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے لفظ ”زور ” کی تفسیر ” شعانین ” سے کی ہے اور ” شعانین ” عیسائیوںکی عیدوں میں سے ایک عید ہے جو انکے عقیدہ کے مطابق یک شنبہ کو آتی ہے اس دن حضرت مسیح علیہ السلام بیت المقدس میں داخل ہوئے تھے ۔ (ان اقوال اور شعانین کی تفسیر کیلئے دیکھئے اقتضاء الصراط المستقیم : ٤٢٧١ ) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اسطرح اللہ تعالی نے کافروں کی عیدوں کو ” زور ” { باطل و جھوٹ } قرار دیا ہے اور اپنے بندوں کو اس میں حاضر ہونے اور نظارہ کرنے سے منع فرمایا ہے، تو جب انکی عیدوں میں حاضری اور انکا دیکھنا مناسب نہیں ہے تو اسمیں شریک ہونے اور اسمیں انکی موافقت کا کیا حکم ہوگا ۔ ( اقتضاء الصراط المستقیم : ٤٢٧١ ) امام ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے کافروں کی عید وں کو زور و باطل قرار دیا ہے ، اس لئے زور و باطل امور کا اظہار جائز نہ ہوگا ۔ ( احکام اہل الذمہ : ٣ ١٢٤٤ ) (٢) نبی کریم ۖ کا ارشاد ہے : من تشبہ بقوم فھو منھم ( سنن ابودائود : ٤٠٣١ ، اللباس ، دیکھئے صحیح الجامع : ٦٠٢٥ ) جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی اسکا شمار انہیں میں ہے ۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے کم از کم جو بات معلوم ہوتی ہے وہ یہ کہ کافروں کی مشابہت حرام ہے ، اگر چہ حدیث کا ظاہر تو یہ بتلاتا ہے کہ کافروں کے ساتھ مشابہت اختیار کرنا کفر ہے ، جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے کہ : وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَِنَّہُ مِنْہُم { المائدة : ٥١ } اور تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے گا وہ بیشک انہیں میں سے ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جو شخص عجمیوں کے علاقہ میں مکان تعمیر کرے ، ان کے نیروز و مہرجان ( اقتضاء الصراط المستقیم کے محقق لکھتے ہیں کہ ” نیروز ” قبطی سال کا پہلا دن ہے { جس مناسبت سے وہ عید مناتے ہیں }اور مہر جان فارسیوں کی عید ہے : ٢٤١١ ) کا اہتمام کرے اور انکے ساتھ مشابہت اختیار کرے ، پھر اسی حالت میں اسکی موت ہوجائے تو قیامت کے دن اسے انہیں لوگوں کے گروہ میں اٹھایا جائیگا ۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کا یہ قول مطلق تشبہ پر بھی محمول کیا جاسکتا ہے جو کفر کو لازم ہے اور اسکا تقاضا یہ بھی ہے کہ بعض ہر کام میں مشابہت حرام ہے ، اور ابن عمرو رضی اللہ عنہما کے قول کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جو شخص جس چیز میں انکی مشابہت کرے گا اسی مقدار میں ان جیسا ہوگا ، چنانچہ اگر وہ عمل کفر ہے(تو کافر ہوگا ) ، یا گناہ ہے (تو گنہگار ہوگا )یا کافروں کا نشان امتیاز ہے تو اس مشابہت کرنے والے کا حکم بھی ویسا ہی ہوگا ۔ (اقتضاء الصراط المستقیم : ٢٤١١ ،٢٤٢ ) امام صنعانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی لباس میں کافر کی مشابہت کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ انہیں کی طرح ظاہر ہوتو وہ کافر ہوگیا ، اور اگر ان جیسا ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتا تو اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے ، بعض تو یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں بھی وہ کافر ہی ہے، اور حدیث کا ظاہر بھی یہی ہے اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے وہ شخص کافر تو نہ ہوگا البتہ اسے { بطور تنبیہ کے } سزا دی جائیگی ۔ (سبل السلام : ٢٤٨٨ ) (٣) حضرت ثابت بن الضحاک سے مروی ہیکہ نبی ۖ کے زمانے میں ایک شخص نے نذر مانی کہ وہ مقام” بوانہ” میں اونٹ ذبح کریگا ، چنانچہ { اپنی نذر پوری کرنے سے قبل } وہ شخص نبی کریم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتاہے کہ میں نے مقام بوانہ میں ایک اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ہے { کیا اسے پوری کروں ؟ } آپ ۖ نے پوچھا : کیا وہاں { زمانۂ جاہلیت میں } کسی بت کی پوجا ہوتی تھی ؟ لوگوں نے جواب دیا : نہیں ، آپ ۖ نے پھر سوال کیا : کیا وہاں زمانۂ جاہلیت کی کسی عید کا میلہ لگتا تھا ؟ لوگوں نے جواب دیا : نہیں ، آپ ۖ نے فرمایا : تو اپنی نذر پوری کرو ، کیونکہ اس نذر کا پورا کرنا جائز نہیںہے جس سے اللہ تعالی کی معصیت لازم آتی ہو اور نہ اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے جو انسان کی طاقت سے باہر ہو ۔ ( سنن ابودائود : ٣٣١٣ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اقتضاء الصراط المستقیم میں اس حدیث کو صحیحین کی شرط پر قرار دیا ہے ، :٤٣٧١ ) امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ جب اللہ کے رسول ۖنے اس جگہ ذبح کرنے سے منع فرمایا جہاں کافروں کی عید کا میلہ لگتا تھا ، اگرچہ وہ لوگ اب مسلمان ہوچکے ہیں،اس عید کو ترک کرچکے ہیں اور سائل اس جگہ عید نہیں منا نا چاہتا تھا بلکہ صرف جانورذبح کررہا تھا ، جسکا واضح مطلب یہ ہے کہ ایسا صرف ایسے غلط راستے کو بند کرنے کی غرض سے تھا کہ کافروں کی عید وںکی یاد کسی طرح باقی نہ رہ رسکے ، اس خوف سے کہ وہاں ذبح کرنا اس جگہ کی یاد تازہ کرنے اور اس جگہ کو عید قرار دینے یعنی میلہ لگنے کا ذریعہ نہ بن جائے، نیز یہ بھی فرمایا کہ اللہ کے رسول ۖ نے جب انکی عید کی جگہ کو کسی عمل کیلئے خاص کرنے سے منع فرمایا تو عید کے بارے میں کیا حکم ہوگا ۔ ( اقتضاء الصراط المستقیم : ٤٤٣١ ) ( ٤ ) مسلمانوں کیلئے مستقل عید کا تعین اور کفار و مشرکین کی عید سے اجتناب رسول اکرم ۖکی بعثت کے مقاصد میں داخل تھا ، اسی لئے آپ ۖ نے اپنے قول و عمل کے ذریعہ کافروں کی عیدوں کو منسوخ ٹھہرایا ، خواہ وہ بت پرست کفار کی عید ہو یا اہل کتاب کی عید ، اور اس امت کیلئے جو اللہ کی محبوب و پسندیدہ اور دوسری امتوں پر گواہ بننے والی امت ہے، دو مبارک عیدیںیعنی عید الفطر و عید الاضحی مقرر کی ہیں ، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول ۖمدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت اہل مدینہ کے یہاں دوایسے دن متعین تھے جن میں وہ کھیل کو د کرتے تھے { دوسرے لفظوں میں یہ کہئے کہ بطور عید مناتے تھے } آپ ۖنے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی نے تمہیں ان دو دنوں سے بہتر دودن عطا فرمائے ہیں ، یوم الأضحی اور یوم الفطر ۔ (سنن ابودائود : ١١٣٤ ، شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح مسلم کی شرط پر ہے ) شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں وجہ دلالت یہ ہیکہ اللہ کے رسول ۖ نا تو عہد جاہلیت کی عیدوں کو باقی رکھا اور نہ ہی انکی عادت کے مطابق انہیں ان دنوںمیں کھیل کود کی اجازت دی ، بلکہ آپ ۖ نے فرمایا : اللہ تعالی نے تمہارے ان دو دنوں کو ان سے بہتر دو دنوں سے بدل دیا ہے ، ذرا غور کریں کہ ایک چیز کو دوسری چیز سے بدل دینے کا تقاضا ہیکہ جس سے بدلاگیا ہو اسے ترک کردیا جائے، کیونکہ بدل اور مبدل منہ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔ { ماخوذ از : کتاب یوم عاشقاں ، مطبوعہ از : جالیات الغاط } ختم شدہ |