بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :15
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ
بتاریخ :01/02/ شعبان 1428 ھ، م 14/13، اگست 2007م
ہر چیز سیکھنے سے
عَنْ ابی ہریرة رضی اللہ عَنْہ قال :قال رَسُوْلُ ۖ :اِنَّمَاالْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ وَ الْحِلْمُبِالتَّحَلُّمِ وَمَنْ یَتَحَرَّ الْخَیْرَ یُعْطَہُ وَمَنْ یَتَوَقِّ الشَّرَّ یُوْقَہُ
الصحیحہ : ٣٤٢
ترجمہ : حضرت ابوہریرة رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے ، برد باری بردبار بننے کی کوشش کرنے سے ملتی ہے ، جو شخص خیر کی جستجو میں رہتا ہے اسے خیر مل جا تا ہے اور جوشرسے بچنے کی کو شش کر تا ہے وہ شر سے بچا لیا جا تا ہے ۔
( الصحیحہ للا لبانی)
تشریح: اللہ تعا لی نے اس دنیا میں ہر چیز کو اسباب کے تابع اور وسیلے سے منسلک کیاہے ،اسباب وو سا ئل کی اہمیت بیان کی ہے اور اسکے استعمال کا حکم دیا ہے ، اللہ تعا لی نے پیٹ بھر نے کیلئے کھانے اور روزی حاصل کرنے کیلئے کمانے کا حکم دیا ہے ، بارش کیلئے بدلی کو اور دھوپ کیلئے سورج کو سبب قرار دیاہے اور کچھ ایسا نظام بنایا ہے کہ ہر چیز جو وجود میں آتی ہے وہ سبب کی محتاج اور وسیلے کی حا جت مند ہے ، مذکورہ حدیث میں بھی اسی طرف اشارہ ہے اس میں چار چیزوں کو چار سبب سے منسلک بتلا یا ہے۔
١- علم کیلئے جدوجہد . کوئی بھی شخص ماں کے پیٹ سے عالم بن کرپیدا نہیں ہوتا بلکہ اس دنیا میں اللہ تعا لی کے بنائے ہوئے اسباب کو استعمال کرکے ہی عالم بنتا ہے ارشاد باری تعا لی ہے :واللہ اخرجکم من بطون امھاتکم لا تعلمون شیئاوجعل لکم السمع والآبصار والآفئدة لعلکم تشکرون ،( النحل ٧٨)
اور اللہ نے تمہیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالاہے کہ اسوقت تم کچھ نہیں جانتے تھے اس نے تمھارےلئے کا ن اور آنکھیں اور دل بنائے کہ تم شکر گزاری کرو 🙁 النحل ٧٨ )
یعنی اللہ تعا لی نے انسان کو کان آنکھ اور دل کی دولت سے اسلئے نوازا تا کہ انہیں استعمال میں لائے اور انکے ذریعہ اپنے نفع و نقصان میں تمییز کرے، واضح رہے کہ علم دوطرح کا ہے ایک علم دنیوی اور دوسرا علم دینی؛ علم دنیا تو انسان تجربے اور باپ وداداکی تقلید سے حاصل کر لیتا ہے البتہ دینی علم کیلئے اسکے صحیح مصد ر سے سیکھنا ضروری ہے بلکہ شرعی طوپر وہی علم معتبر ہے جو انبیا علیہم السلام سے حاصل کیا جا ئے، وہی علم مقبول ہے جو قرآن وحدیث سے لیا جائے، اس میں تجربہ اور باپ دادا کی تقلید کا کوئی دخل نہیں، بلکہ تجربہ اور باپ دادا کی تقلید غیر شرعی سبب اور غلط وسیلہ ہے ۔
٢- برد باری بردبار بننے کی کوشش سے پیدا ہوتی ہے. بعض لوگ فطری طور پر جلد باز، غصہ ور، جذباتی اور بے صبرا ہو تے ہیں، اگر یہ لوگ اپنے اوپر قا بو نہ رکھیں تو جلد با زی اور غصہ میں بہت سی ایسی حرکتیں کر جا تے ہیں جس پر بعد میں شر مندگی اٹھا نی پڑتی ہے، اسلئے لو گو ں کیلئے نہایت ضروری ہے کہ اپنے اندر حلم وبرد باری پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اسکے اسباب ووسائل کو استعمال میں لائیں ۔
٣ – جو خیر کی جستجو کرے اسے خیر مل کر رہتا ہے. نیکی وبھلا ئی عمل خیر ہی سے حاصل ہوتی ہے ، نماز کا ثواب نماز پڑھنے سے حاصل ہو گا، جو شخص نیکی کے کام کرنے اور نیکی کے مواقع کو تلا ش کرنے میں کوشاں رہتا ہے اسے نیکی مل جا تی ہے، صرف تمنا اور جذبات سے نیکی حاصل نہیں ہو تی بلکہ اسکے لئے کوشش وجستجوضروری سبب اور لا زمی وسیلہ ہے ؛ ارشاد باری تعا لی ہے : ومن اراد الآخرة وسعی لہا سعیہا وہو مؤمن فاولئک کان سعیہم مشکورا (١٩ الاسرا)
اور جسکا ارادہ آخرت کا ہو اور جیسی کوشش اسکے لئے ہونی چاہئے وہ کرتا بھی ہو اور وہ باایمان بھی ہو پس یہی لوگ ہیں جنکی کوشش کی اللہ کے ہاں پوری قدر دانی کی جائے گی ۔ (١٩ الاسراء)
٤- جو برائی سے بچنا چاہے وہ برائی سے بچالیا جاتا ہے . جسطرح نیکی کیلئے جستجو و کوشش ضروری ہے اس طرح برائی سے بچنے کیلئے برائی سے دوری اور
برائی کے مواقع سے اجتناب بھی ضروری ہے، انسان کو چاہئے کہ وہ برائی سے بچے اور برائی کی طرف لے جا نے والے اسباب سے پر ہیز کرے ، کچھ لوگ برائی پر برائی کرتے جا تے ہیں، ان سے بچنے کی نہ کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی بچنے کے اسباب استعمال کرتے ہیں ، پھر چاہتے ہیں کہ وہ برائی سے نجات پائیں . ایسا ہر گز نہیں بلکہ برائی وگناہ سے بچنے کے خواہاں حضرات کیلئے ضروری ہے کہ وہ صبر وتحمل سے کام لیں اور برائی سے بچنے کیلئے ا ن تمام اسباب ووسائل کو بھی چھوڑیں جو انھیں برائی تک لے جا تے ہیں ۔
فائدے :
١: مقصود کے حصول کیلئے اسباب کا استعمال ضروری ہے .
٢: اسباب کا استعمال توکل کے خلاف نہیں ہے .
٣: علم نافع وہی ہے جو انبیا ورسل سے حاصل ہو.
٤: خیر کے حصول کی تمنا اور شر سے بچنے کی خواہش اسباب کے استعمال کے بغیر مفید نہیں ہے .
ختم شدہ