،،تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟،،

مشعل نبوت (۶)
،،تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟،،
پہلا خطبہ:
الحمدللهالخبيرِالرقيبِالعليم،الأكرمِالجميلِالعظيم: ﴿ وَإِنتَعُدُّواْنِعْمَةَاللّهِلاَتُحْصُوهَاإِنَّاللّهَلَغَفُورٌرَّحِيمٌ ﴾ [النحل18]،وأشهدإلاإلهإلااللهوحدهلاشريكلهرؤوفٌحكيمٌحليم،وأشهدأننبينامحمدًاعبداللهورسوله،المصطفىالمختارصلىاللهوسلموباركعليهوعلىآلهوصحبهالأخيار.
حمد وثنا کے بعد!
میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ کا تقوی اختیار کرنے اور نفس اور شیطان سے جہاد کرنے کی وصیت کرتا ہوں تاکہ آپ ایمان واحسان کے درجہ پر فائز ہوسکیں:
﴿ لِّلَّذِينَأَحْسَنُواْفِيهَذِهِالدُّنْيَاحَسَنَةٌوَلَدَارُالآخِرَةِخَيْرٌوَلَنِعْمَدَارُالْمُتَّقِينَ ﴾ [النحل30].
ترجمہ: جن لوگوں نے بھلائی کی ان کے لیے اس دنیا میں بھلائی ہے، اور یقینا ً آخرت کا گھر تو بہت ہی بہتر ہے اور كيا ہی خوب پرہیزگاروں کا گھر ہے۔
رحمن کے بندو! سیرت نبوی کے واقعات سے نفس کی خشکی دور ہوتی ہے، ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور بندہ مسلم کی بصیرت میں نور آتا ہے۔ آئیے عطر بیز سيرت نبوی کے ایک واقعہ پر غور وفکر کرتے ہیں، پھر اس سے بعض فوائد اخذ کرتے ہیں:
حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ‬ؓکےگھرتشریف لائے تو حضرت علی ؓ کو گھر مںر نہ پا کر ان سے پوچھا: "تمہارے چچا زاد کہاں گئے؟” انھوں نے عرض کات: ہمارے درماصن کچھ جھگڑا ہو گا تھا، وہ مجھ سے ناراض ہو کر کہں باہر چلے گئے ہں ، انھوں نے مرنے ہاں قلوذلہ نہںی کاھ (یہاں نہں سوئے۔) رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا: ” دیکھو وہ کہاں ہںھ؟” وہ دیکھ کر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! وہ مسجد مںو سو رہے ہںا۔ (یہ سن کر) آپ مسجد مںو تشریف لے گئے جہاں حضرت علی ؓ لٹےن ہوئے تھے۔ ان کے ایک پہلو سے چادر ہٹنے کی وجہ سے وہاں مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ ﷺ ان کے جسم سے مٹی صاف کرتے ہوئے فرمانے لگے: "ابوتراب اٹھو! ابوتراب اٹھو!۔” (متفق علیہ)
پہلا فائدہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی سے ان کے سسرال میں رابطہ کیا اور ان کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے، آپ صرف اپنے والد ہونے کے حق پر قائم نہ رہے کہ ان کی زیارت کی جاتی ، بلکہ خود ہی اپنی صاحبزادی کے گھر زیارت کی غرض سے تشریف لے گئے، اس طرح آپ کی صاحبزادی بھی آپ کے گھر آپ کی زیارت کے لیے تشریف لایا کرتی اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور خواتین عالم کے سردار کے مابین پدرانہ شفقت کا مظہر دیکھنے کو آتا۔
دوسرا فائدہ: فاطمہ رضی اللہ عنہا عمدہ ادب اور بلند ذوق کی حامل تھیں، چنانچہ جب انہوں نے اپنے اور اپنے شوہر کے نزاع کو بیان کیا تو نرم اسلوب اور اجمالی تعبیر اختیار کی : "ہمارے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا اور مجھ سے ناراض ہوکر وہ کہیں باہر چلے گے” (صرف اتنا ہی کہا) اور تفصیلات میں جانے سے گریز کی اور غلطی کی ذمہ داری کسی ایک پر نہ تھوپی، بلکہ (آپسی نزاع کو) دونوں کا مشترک معاملہ بتایا "ہمارے درمیان جھگڑا ہوگیا تھا”۔
اے میرے احباب! بیوی جب ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں اپنی زبان بے لگام کر دیتی ہے، تو وہ اپنی خاصیت کھو دیتی ہے، اپنی پریشانیوں کا دائرہ کشادہ کردیتی ہے، ایک چھوٹے سے مسئلہ کے مختلف پہلوؤں پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھ پاتی۔
تیسرا فائدہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجمالی خبر پر اکتفا کیا اور تفصیل طلب کرنے سے گریز کیا، چنانچہ آپ نے فاطمہ سے یہ نہیں دریافت کیا کہ تم دونوں کے درمیان کیا ہوا؟ اور نہ ان کو تفصیلی ماجرا بیان کرنے پر مجبور کیا؟ بلکہ ان تمام تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے ان کے شوہر کی تلاش میں لگ گئے جو ناراض ہوکر کہیں باہر چلے گئے!
ازدواجی زندگی کے پیش آمدہ مشاکل سے (حکمت کے ساتھ) نپٹنا اور ان کی تفصیلات میں جانے سے گریز کرنا ، انہیں معمولی پریشانی میں تبدیل کر دیتا ہے۔
چوتھا فائدہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داماد کے ساتھ پدرانہ شفقت سے پیش آئے جس سے ان کو یہ محسوس ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پدرانہ شفقت میاں بیوی دونوں کے لیے ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آتے ہیں، وہ سورہے ہوتے ہیں، آپ اپنے دست مبارک سے ان کے پہلو پر لگی مٹی جھاڑتے ہیں اور پیار سے فرماتے ہیں: ابو تراب! اٹھو ۔ ابو تراب! اٹھو۔ اس مشفقانہ اسلوب سے نفس میں انسیت ومحبت پیدا ہوئی، آپ نے انہیں ایسی کنیت سے پکارا جو ان کی موجودہ ہیئت کی تعبیر تھی، آپ نے ان کی سرزنش نہیں کی کہ وہ آپ کی صاحبزادی سے ناراض ہوکر کیوں نکل آئے، جب کہ آپ کے نزدیک فاطمہ کا مقام ومرتبہ بلند تھا۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله ….
حمد وصلاۃ کے بعد:
سابقہ واقعہ سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ازدواجی مشکلات سے نپٹنے میں حکمت سے کام لیا، وہ بھی ایسے مشکلات جن میں غصہ کا عمل دخل ہوتا ہے، چنانچہ ان کا گھر سے نکل کر مسجد میں قیلولہ کرنا گفتگو کو طول دینے، جگھڑا کوبڑھانے ، جذبات کو بھڑکنے سے روکنے میں معاون ثابت ہوا، انجام کار غصہ ٹھنڈا ہوگیا اور دلوں میں طبعی مودت ورحمت عود کر آئی۔
چھٹا فائدہ: اس واقعہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کی رفعت ومنزلت ظاہر ہوتی ہے ، بایں طور کہ آپ نے ان کے بارے میں دریافت کیا، پھر چل کر ان کے پاس گئے اور ان کے بازو سے مٹی جھاڑا ، ان کو کنیت سے پکارا اور ان کی سرزنش نہیں کی۔
ساتواں فائدہ: اس پیا رومحبت اور نرمی وملاطفت کا اثر علی رضی اللہ عنہ کے دل میں تازہ رہا اور وہ اسے یاد کرکے ہمیشہ خوش ہوتے رہے ، چنانچہ تمام ناموں میں ان کو سب سے زیادہ "ابو تراب” ہی پسند تھا، سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتےہیں: "حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کوئی نام ابو تراب سے زیادہ پسند نہیں تھا ، جب انہیں ابوتراب کہا جاتا تو بہت خوش ہوتے تھے”۔

إنالصلاةَعلىالنبيِهدايةٌ
فلتتخذمنهالدينكسُلَّما
ترقىبهاعندالإلهفردِّدوا
صلىالإلهعلىالنبيوسلَّما

ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا ہدایت کا کام ہے۔ تمہیں اس ہدایت کو زینہ کے طور پر اپنا لینا چاہئے۔
تاکہ اس کے ذریعہ اللہ کے نزدیک بلند مقام تک پہنچ سکو، چنانچہ بار بار دہراؤ اور کہو: اللہ تعالی نبی درود وسلام بھیجے!

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین