اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں

موضوع:
اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں
پہلا خطبہ:
إنالحمدللهنحمدهونستعينهونستغفرهونعوذباللهمنشرورأنفسناومنسيئاتأعمالنامنيهدهاللهفلامضللهومنيضللفلاهاديلهوأشهدأنلاإلهإلااللهوحدهلاشريكلهوأشهدأنمحمداعبدهورسوله ﴿ يَاأَيُّهَاالَّذِينَآمَنُواْاتَّقُواْاللّهَوَابْتَغُواْإِلَيهِالْوَسِيلَةَوَجَاهِدُواْفِيسَبِيلِهِلَعَلَّكُمْتُفْلِحُونَ ﴾ [المائدة: 35]
حمد وثنا کے بعد!
معزز حضرات!
ايك ايسا زہر جو دل میں سرایت کرتا ہے تو اسے بیمار کردیتا ہے،شہروں میں سرایت کرتا ہے تو اسے برباد کردیتا ہے، اس کے نقصانات بڑے سنگیناور اس کا انجام خطرنا ک ہے، اس کی وجہ سے رزق اور علم سے محرومی ہاتھ آتی ہے، ایمان کمزور ہوتا ہے، بندہ اپنے رب کے سامنے ذلیل وخوار ہوجاتا ہے، اس سے اگر اس نے توبہ نہیں کیا تو عذاب قبر یا عذاب جہنم کا مستحق قرار پاتا ہے،اور وہ زہر ہے گناہ اور نافرمانی۔
کیا گناہ ہی کی وجہ سے آدم او رحوا جنت سے نہیں نکالے گئے تھے؟!
صحیح بخاری میں ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مر ی امت کے سب لوگ جنت مںے داخل ہوں گے مگر جو انکار کرے گا۔“ صحابہ کرام نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کون ہے جو انکار کرے گا؟ آپ نے فرمایا: ”جس نے مرکی اطاعت کی وہ جنت مںب داخل ہوگا اور جس نے مر؟ی نافرمانی کی تو اس نے یناً انکار کان۔“
میرے بھائیو! ہم تقوی الہی کے بارے میں بہت سنتے اور پڑھتے ہیں لیکن اسے عملی جامہ پہنانے میں ہم کہاں تک کامیاب ہیں؟!
تقوی کی حقیت دو بنیادوں پر کھڑی ہے: اوامر کی بجا آوری اور منہیات سے اجتناب ۔
میرے دینی بھائیو!
گناہوں کے جو اثرات دل پر مرتب ہوتے ہیں، انہیں ابن القیم نے ایک بلیغ تشبیہ سے سمجھایا ہے، آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ جان لینا چاہئے کہ گناہ اور معاصی نقصاندہ ہیں، دل پر ان کا نقصان اسی طرح ہوتا ہے جس طرح زہر سے جسم کو نقصان ہوتا ہے، البتہ دونوں کے نقصان کے درجات اور معیار الگ الگ ہیں”۔انتہی
انسان بیماریوں اور وباؤں کے اسباب سے دور رہتا ہے اور اگر کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو فورا اس کا علا ج کراتا ہے، کیا گناہوں سے ہمیں بدرجہ اولی نہیں بچنا چاہیے اور اگر ہم ان کے شکار ہوجائیں تو اس کا فورا علاج نہیں کرنا چاہئے؟! اس میں کوئی شک نہیں کہ بیماریوں کے حساب سے ان کے علاج بھی مختلف ہوتے ہیں، چناچہ کینسر کے علاج کے لیے دیگر عارضی بیماریوں کے بالمقابل زیادہ توجہ اور عنایت درکار ہوتی ہے، یہ عجیب بات ہے کہ ہم نقصان کے خوف سے بعض غذاؤں سے احتیاط برتتے ہیں ، لیکن گناہوں سے نہیں بچتے جو عذاب قبر یا عذاب جہنم کا سبب ہے۔
ایمانی بھائیو! انسان فرشتوں سے مختلف ہے، فرشتے گناہ نہیں کرتے ، لیکن انسان معصوم نہیں ہے، کیوں کہ اس کی سرشت میں کوتاہی اور غلطی کرنا ودیعت کردی گئی ہے، ترمذی اور ابن ماجہ کی روایت کردہ حدیث میں آیا ہے:”سارے انسان خطا کارہںی اور خطا کاروں مںل سب سے بہتروہ ہںل جو توبہ کرنے والے ہںر”۔اس حديث کو البانی نے حسن کہا ہے۔
یہ اللہ کی نعمت ہے کہ اس نے ہمارے لیے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے اور گناہوں کی معافی کی گنجائش باقی رکھی ہے، آپ علیہ الصلاۃ والسلام فرماتے ہیں: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ مںا مر ی جان ہے! اگر تم (لوگ) گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تم کو (اس دناا سے) لے جائے اور (تمہارے بدلے مںز) اییہ قوم کو لے آئے جو گناہ کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگںو تو وہ ان کی مغفرت فرمائے۔” اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ آپ یہ نہ بھولیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث ان صحابہ کرام سے فرمائی جو تقوی اور استقامت کے حظ وافر سے لیس تھے۔
آپ غور کریں کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے گناہ کے تئیں مومن کی حالت وکیفیت کو کس طرح بیان کیا ہے: مومن اپنے گناہوں کو اس طرح محسوس کرتا ہے گویا وہ کسی پہاڑ کے نچےف بٹھا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ مبادا وہ اس پر گر جائے اور بد کار اپنے گناہوں کو اس مکھی کی طرح خانل کرتا ہے جو اس کی ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس کی طرف اشارہ کات۔ ابو شہاب نے اپنی ناک پر اپنے ہاتھ کے اشارے سے اسکی کتکی با ن کی۔اسے بخاری نے روایت کیا ہے۔
ہاں میرے بھائیو! گناہوں کو حقیر سمجھنا ایک بڑا سنگین عمل ہے، حدیث میں آیا ہے:” تم ان گناہوں سے بچو جن کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔ جن گناہوں کو حقرا سمجھا جاتا ہے، ان کی مثال ایسے لوگوں کی مانند ہے جنہوں نے ایک وادی مں پڑاؤ ڈالا، ایک آدمی ایک لکڑی لے آیا، دوسرا ایک اور لے آیا، حتیٰ کہ (اتنی لکڑیاں جمع ہو گئں کہ) انہوں نے اپنی روٹی پکا لی اور بے شک جب حقرا گناہوں کے مرتکب کا مؤاخذہ کا جائے گا تو وہ اس کو ہلاک کر دیں گے“۔ اس حدیث کو البانی نے صحیح کہا ہے۔
بخاری نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ قول روایت کیا ہے جو انہوں نے تابعین کے دور میں فرمایا: ” تم ایسے ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر مںع بال سے بھی زیادہ باریک ہںے جبکہ ہم لوگ نبیﷺ کے عہد مبارک مںت انہںم ہلاک کر دینے والے شمار کرتے تھے”۔ اگر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ صحابی اس زمانے میں ہماری حالت دیکھتے تو کیا فرماتے!
﴿ ظَهَرَالْفَسَادُفِيالْبَرِّوَالْبَحْرِبِمَاكَسَبَتْأَيْدِيالنَّاسِلِيُذِيقَهُمْبَعْضَالَّذِيعَمِلُوالَعَلَّهُمْيَرْجِعُونَ ﴾ [الروم: 41]
ترجمہ: خشکی اور تری میں لوگوں کی بد اعمالیوں کے باعث فساد پھیل گیا۔ اس لئے کہ انہیں ان کے بعض کرتوتوں کا پھل اللہ تعالی چکھا دے (بہت) ممکن ہے کہ وہ باز آجائیں۔
اے اللہ! ہمارے سارے اگلے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادے۔
اللہ تعالی مجھے اور آپ کو قرآن وسنت کی برکت سے بہرہ ور فرمائے، ان میں جو آیت اور حکمت کی بات آئی ہے، اس سے ہمیں فائدہ پہنچائے، آپ اللہ سے مغفرت طلب کریں، یقینا وہ خوب معاف کرنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمد لله وحده…
حمد وصلاۃ کے بعد:
اسلامی بھائیو! گناہوں کا مقابلہ اطاعت ، ایمانی تقویت اور نفس کے مجاہدہ سے کیا جاتا ہے:
﴿ ظَهَرَالْفَسَادُفِيالْبَرِّوَالْبَحْرِبِمَاكَسَبَتْأَيْدِيالنَّاسِلِيُذِيقَهُمْبَعْضَالَّذِيعَمِلُوالَعَلَّهُمْيَرْجِعُونَ ﴾ [الروم: 41]
ترجمہ: ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہش سے روکا ہوگا۔
جب ہم گناہ کر بیٹھیں تو ہمیں اس عمل کو سنگین جان کر اس سے توبہ کرنا چاہئے ، یہی اس کا علاج ہے:
﴿ إِنَّالَّذِينَاتَّقَوْاإِذَامَسَّهُمْطَائِفٌمِنَالشَّيْطَانِتَذَكَّرُوافَإِذَاهُمْمُبْصِرُونَ ﴾ [الأعراف: 201].
ترجمہ: یقینا جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے آجاتا ہے تو وہ یاد میں لگ جاتے ہیں ، سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔
اللہ کے بندے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت ہے کہ : "برائی کے بعد (جوتم سے ہوجائے) بھلائی کروجو برائی کومٹادے”۔
اللہ کے بندے! گناہ کو حقیر نہ جانو اگرچہ اس کے مرتکبین کثرت ہی میں کیوں نہ ہوں، کیوں کہ اعتبار اللہ اور رسول کے حکم کا ہے لوگوں کے کردار کا نہیں، کیا یہ درست ہے کہ بندہ قیامت کے دن اپنے رب کے سامنے یہ عذر پیش کرے کہ لوگ ایسا کرتے تھے؟!
اللہ کے بندے! جب بھی آپ کمزور پڑ جائیں اور گناہوں میں لت پت ہوجائیں تو اپنے رب سے توبہ کریں، ندامت وتوبہ کے ذریعہ خود کو پاک وصاف کریں اور اطاعت سے اپنے آپ کو معطر کریں۔
اللہ کے بندے!
﴿ إِنَّاللَّهَيُحِبُّالتَّوَّابِينَوَيُحِبُّالْمُتَطَهِّرِينَ ﴾ [البقرة: 222]
ترجمہ: اللہ توبہ کرنے والوں کو اور پاک رہنے والوں کو پسند فرماتاہے۔
ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یعنی گناہوں سے ( توبہ کرنے اور پاک رہنے والوں کو) ، اگرچہ بار بار ہی ان سے گناہ کیوں نہ ہو تا ہو”۔ آپ گناہوں پر مصر رہنے سے ہوشیار رہیں:
﴿ فَاسْتَغْفَرُوالِذُنُوبِهِمْوَمَنْيَغْفِرُالذُّنُوبَإِلَّااللَّهُوَلَمْيُصِرُّواعَلَىمَافَعَلُواوَهُمْيَعْلَمُونَ ﴾ [آلعمران: 135].
ترجمہ: اپنے گناہوں کے لیے استغفار کرتے ہیں ، فی الواقع اللہ تعالی کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے، اور وہ لوگ باوجود علم کے کسی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔
اللہ کے بندے! اس بات سے خبردار رہیں کہ کسی گناہ گار کا مزاق اڑائیں یا اسے عار دلائیں، کتنے ہی ایسے نیک لوگ ہیں جو دوسرے کو عار دلانے کی وجہ سے خود اس گناہ میں مبتلا ہوگئے، وہ گناہ جس پر انسان کو ندامت اور عاجزی کا احساس ہو، اس عبادت سے بہتر ہے جس میں خود پسندی داخل ہو۔
اللہ کے بندے! اگر آپ تمام گناہوں سے توبہ کے اعلان نہیں کرسکتے تو کم ازکم بعض گناہوں سے توبہ ضرور کریں، کیوں کہ جو شخص مختلف بیماریوں کاشکا ر ہو ، اسے چاہئے کہ تمام بیماریوں کے علاج میں جلدی کرے، اگر ایسا نہ کرسکے تو کم از کم بعض بیماریوں کا علاج کرانا تمام بیماریوں کو چھوڑے رہنے سے بہتر ہے جو اس کے جسم کو ہلاک کردیں۔
اللہ کے بندے! اگر آپ گناہ کے عادی ہوچکے ہیں اور اس سے با ز آنا چاہتے ہیں تو آپ مایوس نہ ہوں، اپنے پروردگار سے انکساری اور الحاح وزاری کے ساتھ یہ دعا کریں کہ آپ کو توبہ کی توفیق دے، گناہ سے نجات دے، اپنی طاقت وقوت سے براءت کا اظہار کریں، اپنے رب پر ہی بھروسہ رکھیں، ساتھ ہی اسباب ضرور اختیار کریں، ان اسباب کی تلاش کریں جو آپ کے دل میں ایمان کو پروان چڑھا سکے ، کیوں کہ دل میں جس قدر ایمان بڑھے گا اور اپنے پرودگار پر آپ کا اعتماد مضبوط ہوگا، اسی قدر آپ کے دل سے شیطان کا تسلط جاتا رہے گا:
﴿ إِنَّهُلَيْسَلَهُسُلْطَانٌعَلَىالَّذِينَآمَنُواوَعَلَىرَبِّهِمْيَتَوَكَّلُونَ ﴾ [النحل: 99].
ترجمہ: ایمان والوں اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھنے والوں پر اس کازور مطلقا نہیں چلتا۔
خاتمہ:
ہم ایک مبارک دن سے گزر رہے ہیں، آئیے ہم اپنے گناہوں کو سچی توبہ سے دھلتے ہیں اور صدقہ وخیرات کرتے ہیں، اللہ پاک کا فرمان ہے:
﴿ أَلَمْيَعْلَمُواأَنَّاللَّهَهُوَيَقْبَلُالتَّوْبَةَعَنْعِبَادِهِوَيَأْخُذُالصَّدَقَاتِوَأَنَّاللَّهَهُوَالتَّوَّابُالرَّحِيمُ ﴾ [التوبة: 104].
ترجمہ: کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں اور رحمت کرنے میں کامل ہے۔
اللهمكماجملتنيوالمذنبينبستركفجملناوإياهمبعفوكومغفرتكوهدايتكورضوانك.

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین