بسم اللہ الرحمن الرحیم
22:درس نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بائیسواں سال
نبوت کے 23 سال23درس
سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013
ہجرت کا نواں سال : 9 ھ
یہ سال اور سالوں سے اس ناحئے سے مختلف ہے کہ اس سال قتل و قتال کو کوئی بڑا حادثہ نہیں پیش آیا بلکہ زیادہ تر امور تنظیمی رہے ہیں :
[۱] تحصیلداران زکاۃ کی روانگی : چونکہ اب جزیرہ عربیہ کے اکثر حصہ پر اسلامی حکومت قائم ہوچکی تھی اور لوگ اسلام کو قولا و عملا قبول کرچکے تھے لہذا زکاۃ کو ایک تنظیمی شکل دینے کے لئے اس کی وصولی کے لئے نبی ﷺ نے اپنے نمائندوں کو اطراف میں بھیجا ،یہ کام نبی ﷺ نے محرم 9 ھ سے شروع فرمایا تھا ، مورخین اور سیرت نگاروں نے تحصیلداروں کے 16 سے زائد نام لکھے ہیں ۔ { طبقات ابن سعد :2/160 – سیرت ابن ہشام :4/ 255، 256 } ۔
[۲] بعض فوجی دستے : اگر چہ جزیرہ عربیہ کے اکثر حصے پر مسلمانوں کی حکومت تھی لیکن مدینہ منورہ سے دور دراز کے بعض علاقے ابھی بھی اسلام دشمنی اور اپنی جہالت پر اڑے ہوئے تھے اور شرک و کفر کے بعض اڈے ابھی تک لوگوں کے لئے خطرہ بنے ہوئے تھے ، لہذا اس سال بھی نبی ﷺ کو بعض فوجی دستے روانہ کرنے پڑے ، جن میں سے چند درج ذیل ہیں : [الف ] سریۃ عیینہ بن حصن محرم 9 ھ : نجد کے ایک بہت بڑے حصے پر خصوصا "وشم "اور مشرقی علاقے میں بنو تمیم آباد تھے ، انہوں نے ان قبائل کو جو مسلمان ہوچکے تھے بھڑکا کر زکاۃ کی ادائیگی سے روک دیا تھا ، لہذا ان کی سرکوبی کے لئے نبی ﷺ نے عیینہ بن حصن کو پچاس سوار دیکر بھیجا ، مسلمانوں نے اچانک ان پر حملہ کردیا جس سے وہ بھاگ کھڑے ہوئے کچھ قیدی اور عورتیں و بچے مسلمانوں کے ہاتھ آئے ، بعد میں وہ لوگ تائب ہوکر مدینہ منورہ آئے اور معذرت نامہ پیش کیا تو اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے قیدی انہیں واپس کردئے ، سورۃ الحجرات کے ابتداء میں اسی وفد کے آنے کا ذکر ہے ۔ [ب] سریہ علقمہ بن مجزر مدلجی ، ربیع الاول 9 ھ : نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ حبشی ڈاکو ساحل جدہ پر اتر کر مکہ اور اس کے آس پاس کے مسلمان علاقوں میں ڈاکہ زنی کی تیاری کررہے ہیں ، جن کی سرکوبی کے لئے نبی ﷺ نے علقمہ بن مجزر رضی اللہ عنہ کو تین سو سواروں کا ایک دستہ دیکر بھیجا جنہیں دیکھ کر وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ [ج ] سریہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ربیع الاول 9 ھ: اسی سال ربیع الآخر 9 ھ کو نبی ﷺ نے ایک سو اونٹ اور پچاس گھوڑوں پر مشتمل ایک فوجی دستہ حضرت علی کی قیادت میں بنوطی کے علاقے میں بھیجا ، مسلمانوں نے فجر کے وقت حاتم طائی کے محلے پر ہلہ بو ل دیا ، ان کے کنیسہ کو مسمار کردیااور بہت سارے لوگ قیدی بنائے گئے جن میں حاتم طائی کی بہن یا بیٹی بھی تھی ، البتہ حاتم طائی کے بیٹے عدی بن حاتم اس وقت وہاں موجود نہیں تھے جب انہوں نے مسلمانوں کے آمد کی خبر سنی تو بھاگ کھڑے ہوئے ، حاتم طائی کی بہن نے نبی ﷺ سے رحم کی درخواست کی ، آپ نے اسے چھوڑ دیا ، پھر بعد میں عدی بن حاتم بھی تائب ہوکر آئے اور وہ بھی مسلمان ہوگئے ۔
[۳] غزوہ تبوک ، رجب 9 ھ : نبی ﷺ کو اطلاع ملی کہ قیصر روم مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کررہا ہے جس کے لئے اس نے جزیرہ میں بسنے والے نصرانی قبائل کو بھی اپنے ساتھ ہونے کی دعوت دی ہے ، نبی ﷺ نے بھی تیاری شروع کردی ، یہ موسم گرمی کا، تھا کھجور یں پک رہی تھیں ، سفر دور کا تھا اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت سے مقابلہ تھا ، اس لئے اسے جیش عسرہ کہتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ نے لشکر کی تیاری کا اعلان فرمایا اور صدقہ پر لوگوں کو ابھارا ، چنانچہ ہر سچے مسلمان نے اس میں حصہ لیا ، کسی نے کیلو سوا کیلو کھجور صدقہ کیا تو کسی نے پورے لشکر کی تیاری کا بوجھ اٹھایا اور کسی نے اپنے گھر کا سارا سامان اللہ کی راہ میں خرچ کردیا اس کے برخلاف منافقین مسلمانوں پر اعتراض اور ان کی ہمتیں پست کرنے کا رول ادا کرتے رہے ۔ بروز جمعرات ، رجب 9 ھ کی کسی تاریخ کو نبی ﷺ اپنے تیس ہزار صحابہ کے ساتھ تبوک کے لئے روانہ ہوئے اورتقریبا 800 کیلو میٹر کی لمبی مسافت طے کرنے کے بعد تبوک پہنچ کر خیمہ زن ہوگئے ،وہاں تقریبا بیس دن قیام پذیر رہے لیکن دشمن پر ایسا خوف طاری ہوا کہ مقابلہ کے لئے نہ آیا ، بالآخر نبی ﷺ آس پاس کے علاقے میں فوجی دستے بھیج کر اپنا رعب قائم کیا اور پھر مدینہ منورہ کے لئے واپس ہوگئے ، یہ نبی ﷺ کی سب سے آخری مہم تھی ۔
[۴] وفو د کی آمد : فتح مکہ کے بعد جب تمام اہل جزیرہ پر حقائق واضح ہوگئے اور غزوہ تبوک کے بعد جب مسلمانوں کی سیاسی دھاک بیٹھ گئی تو لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگے، جس کے لئے نبی ﷺ کے پاس وفود کے آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ، عام وفود آتے اسلام قبول کرتے اور اپنی وفاداری کا اقرار کرکے چلے جاتے ، کچھ وفود ایسے بھی آئے جو جزیہ دینے اور صلح پر تیار ہوگئے ،یہ سلسلہ صرف 9 ھ نہیں بلکہ 10 ھ میں بھی جاری رہا ہے ، اس درمیان وفود کی آمد اس کثرت سے رہی کہ اہل سیر نے اس سال کانام عام الوفود رکھا ہے ، سیرت کی کتابوں میں کم و بیش چھوٹے بڑے سو وفدوں کا ذکر ملتا ہے ۔
[5] حجۃ ابی بکر ، 9 ھ : اسی سال حج فرض ہوا ، چونکہ نبی ﷺ وفود کے استقبال میں مشغول تھے اور ابھی تک بیت اللہ کا حج مشرک بھی کرتے تھے لہذا نبی ﷺ اس سال خود تو حج کے لئے تشریف نہ لے گئے ، البتہ اپنی نیابت میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو امیر حج بنا کر بھیجا اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو سورہ براءت کی ابتدائی آیتیں دے کر روانہ کیا جس کی بنیاد پر موسم حج میں درج ذیل باتوں کا اعلان کیا گیا ۔ ۱- جنت میں صرف وہی شخص داخل ہوگا جو مومن ہوگا ۔ ۲- اسلام کا اعلان براءت ۔ ۳- جس کے ساتھ نبی ﷺ کا عہد ہے اس کی مدت صرف چار ماہ ہے ۔ ۴- آج کے بعد سے کوئی مشرک بیت اللہ کے قریب بھی نہ بھٹکے گا ، ۵- آج کے بعد سے کوئی بیت اللہ کا طواف برہنہ ہوکر نہ کرے گا ۔ ۶- جزیرہ عربیہ میں صرف مسلمان رہیں گے ۔
بعض اہم حادثات : [۱] غامدیہ کا رجم : اسی سال غامدیہ کے رجم کا واقعہ پیش آیا ۔ [۲] نجاشی کی وفات : شاہ حبشہ نجاشی کی وفات اسی سال رجب کے مہینے میں ہوئی ، نبی ﷺ نے ان کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھی ۔ [۳] ام کلثوم بنت رسول اللہ ﷺ کی وفات : اسی سال شعبان کے ماہ میں نبی ﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی ۔ یہ حضرت عثمان کے عقد میں تھیں ۔ [۴] عبد اللہ بن ابی ابن سلول کا انتقال : اسی سال منافقوں کا سردار عبد اللہ ابن ابی کا انتقال ہوا ، اس کے بیٹے کی خواہش پر نبی ﷺ نے اس کے کفن کے لئے اپنا قمیص عطا فرمایا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی ، لیکن اس کے بعد اللہ تعالی نے آپ کو کسی منافق کی نماز پڑھنے سے روک دیا ۔ [۵] عبد اللہ ذو البجادین کا انتقال :میدان تبوک میں آپ قیام پذیر تھے کہ ایک اللہ والے صحابی جن کا نام عبد اللہ تھا وفات پائے ، نبی ﷺ ان کی وفات پر بڑے غمگین ہوئے ، بذات خود انہیں قبر میں اتارا اور فرمائے : اے اللہ میں اس سے راضی تھا تو بھی اس سے راضی ہوجا ” ۔ [۶] لعان کا قصہ : اسی سال حضرت عویمر العجلانی اور ان کے بیوی کے درمیان لعان کا واقعہ پیش آیا ۔ 7- اسی سال غزوہ تبوک سے واپسی پر نبی ﷺ نے منافقین کو رسوا کیا اور ہر ایک کا نام لے کر مسجد سے نکل جانے کا حکم دیا ۔
سیرت درس:22 |