تیسرا و چوتھا سال / درس نمبر : 2

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

2:درس نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

تیسرا و چوتھا سال

نبوت کے 23 سال23درس

سلسلہ مختصر سیرت النبی ﷺ / رمضان 2013

تیسرا و چوتھا سال :

جہری دعوت اور محاذ آرائی کا ماحول :

نبی ﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی پیہم کوشش سے جب لوگ دین میں داخل ہونے لگے ، تو قریش کو خطرہ لاحق ہوا کہ اس طرح تو ہمارے باب دادا کا دین مٹ کر رہ جائے کا لہذا  وہ اس دعوت کو روکنےکے درپے ہوئے اور اس کے لئے  مختلف تدبیریں کرنے لگے ۔

روکنے کی تدبیریں :

[۱] ہنسی مذاق اڑانا : لوگوں نے نبی ﷺ آپ کے دین اور آپ کے ساتھیوں کا مذاق اڑانا شروع کیا ، کوئی کہنا کہ کیا اللہ تعالی کو اس یتیم کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں مل سکا جسے نبی بناتا ، کوئی کہتا یہی لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کے لئے چن لیا ہے ، کوئی  آپ کو درو سے آتے دیکھتا  تو اپنے ساتھیوں سے اشارے و کنایہ آپ کے خلاف  باتیں کرنے لگتا ، کوئی آپ کے پاس جو فرشتہ وحی لے کر آتاا سے شیطان کا نام دیتا ، اگر کبھی وحی میں تاخیر ہوتی یا آپ بیماری کی وجہ سے رات کو نماز نہ پڑھ سکتے تو آپ پر طنزیہ جملے کسے جاتے ۔

اس کے جواب میں اللہ تعالی نے آپ کو تسلی دی : ۱- یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، آپ سے  پہلے نبیوں کا بھی مذاق اڑایا گیا ۔ ۲- مذاق اڑانے والوں کا انجام ہلاکت و بربادی ہے ۔ ۳- اللہ تعالی نے آپ کو جو مقام دیا ہے  وہ ان کے ٹھٹھا  ومذاق سے گھٹے گا نہیں ۔

[۲] الزام تراشیاں : آپ کی دعوت کو روکنے کےلئے آپ پر بہت سے الزام بھی لگائے گئے :

۱- آپ صابی یعنی بے دین ہین ۔ ۲- آپ مجنون و پاگل ہیں ۔ ۳- جادوگر ہیں ۔ ۴- آپ جھوٹے ہیں ۔ ۵- آپ کے پاس جن وشیطان آتے ہیں ۔ ۶- آپ شاعر ہیں ۔ وغیرہ ۔

اللہ تعالی نے آپ کے تسلی دی اور فرمایا : [يس(1) وَالقُرْآَنِ الحَكِيمِ(2) إِنَّكَ لَمِنَ المُرْسَلِينَ(3) عَلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ(4) ]. {يس}.

[۳] بحث و کٹ حجتی :

مکہ کے لوگ آپ سے بحث  مناظرہ کرتے تھے خاص کر تین مسئلوں پر کفار کو بڑے شبہات تھے :

پہلا مسئلہ :  آخرت کے بارے میں کیونکہ ان کے نزدیک بعث بعد الموت ایک مستحیل امر تھا ۔

دوسرا مسئلہ : توحید کا تھا ، وہ اللہ تعالی کو خالق و مالک تو مانتے تھے ، لیکن اس تک پہنچنے کے وسائل  کے طور پر بہت سی مخلوق کی عبادت کرتے تھے ۔

تیسری چیز : موضوع بحث یہ تھی کہ ان کے نزدیک بشریت اور نبوت ایک ساتھ جمع ہونا بڑے تعجب کی بات تھی ۔

[۴] پروپگنڈہ : چونکہ مکہ تمام اہل عرب کا کعبہ تھا  اور لوگ دور دور سے اس گھر کی زیارت کو آتے تھے لہذا انہیں دین سے روکنے کے لئے قریش کے لوگوں نے آپ کے خلاف پروگنڈہ کرنا شروع کیا تاکہ باہر سے آئے ہوئے لوگ آپ کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہوں ، لیکن پھر بھی لوگ مسلمان ہوتے رہے جیسے طفیل بن عمرو دوسی وغیرہ ۔

[۵] ترغیب و ترہیب : جب الزام تراشیوں اور پروپگنڈوں سے کام نہ چلا تو قریش نے نبی ﷺ اور مسلمانوں کو  لالچ دلانے اور آپ  کو ڈرانے دھمکانے کا اسلوب اختیار کیا ۔ مال پیش کیا گیا ، سرداری کی پیش کش کی گئی اور تجارت کو ماند کردینے اور عز وشرف کا مٹی میں ملا دینے کی دھمکیاں دی گئیں ۔

[۶] معجزات کا مطالبہ : جب مشرکین بحث و کٹ حجتی میں کامیاب نہ ہوئے تو نبی ﷺ سے معجزات کا مطالبہ کرنا  شروع کردیا ، اس کے جوا ب میں آپ ﷺ یہی فرماتے کہ معجزات کا دکھانا میرے اختیار میں نہیں ہے یہ صرف اللہ کا فضل ہے ، جب چاہتا ہے جیسے چاہتا ہے  ظاہر کرتا ہے ۔

[۷]ایذا رسانی :

جب بات اس پر بھی نہ بنی اور دین اسلام برابر پھیلتا رہا ہے تو قریش نے آخری حربہ استعمال کیا اور مسلمانوں اور خود رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچانے لگے ، کئی کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جانے لگا ، کسی کو گرم ریت پر لٹا کر اس کے سینے پر سخت پتھر رکھ دیا جاتا اور کسی کو اس قدر سمجھا جانے لگا کہ اس کے گلے میں رسی باندھ کر مکہ کی گلیوں میں  اسے گھسیٹا جانے لگا لیکن یہ تمام چیزیں دین قبول کرنے والوں کے لئے رکاوٹ نہ بن سکیں ۔

ہجرت حبشہ  سن 5 نبوی :

جب مسلمانوں پر تکلیفیں بہت بڑھ گئیں تو وہ اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہوگئے ، اوررجب سن 5 نبوی کو پندرہ مسلمان جنہیں 11 مرد اور 4 عورتیں تھیں ، حبشہ کی طرف ہجرت کئے ، انہیں لوگوں میں حضرت عثمان اور ان کی بیوی رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ بھی تھیں ۔ انہیں میں حضرت ابو سلمہ  اور ان کی بیوی حضرت ام سلمہ بھی تھیں ۔

جب ان لوگوں کو وہاں سکون و اطمینان حاصل ہوا تو کچھ اور مسلمان  ان سے جا ملے ، اسے دوسری ہجرت حبشہ کہا جاتا ہے ، اس بار سو کے قریب مسلمان ہجرت کرکے گئے تھے ، جن میں اسی مرد اور باقی عورتیں تھیں ۔

قریش نے حبشہ اپنا وفد بھیجا تاکہ نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف ورغلائیں لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے ۔