جمعہ کے دن کی بعض خصوصیات

موضوع:
جمعہ کے دن کی بعض خصوصیات
پہلا خطبہ:
اے شریفوں کی جماعت!اللہ نے اپنی بعض مخلوق کو بعض مخلوق پر ،اپنی جانب سے انہیں منتخب فرماکر،اور ان کی عزت وتکریم کرکے، انہیں فضیلت و برتری عطا کی ہے:﴿ وَرَبُّكَيَخْلُقُمَايَشَاءوَيَخْتَارُ ﴾
ترجمہ:اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔
چنانچہ انسانوں میں سے رسولوں،فرشتوں میں سے جبریل،میکائیل اور اسرافیل علیہم السلام کو فضیلت عطاکی،اور دنوں میں اللہ پاک نے جن ایام کو برتی اور فضیلت دیا وہ آج کا یہ دن جمعہ ہے،کیوں کہ اللہ نے اسے اپنے فضل وانعام کے لیے تہوار،اپنے اولیاء اور منتخب بندوں کے لیے تجارتی دن قرار دیا،یہ لوگ اللہ کی جانب سے دی گئی رحمت و فضل سے فائدہ اٹھاتے ہیں،اس عظیم دن کے کچھ ایسی فضیلتیں،خوبیاں اور خصوصیات ہیں جو دیگر دنوں کو حاصل نہیں،یہ خوشنما عید ہے جو ہر سات دن پر آتی ہے،ابن القیم نے”زاد المعاد”میں ذکر کیا ہے:جمعہ کے دن کے تیتیسن(33) خصوصیات ہیں،ہم اس دن کی بعض خصوصیتوں کو بیان کریں گے:
اس دن کی ایک خوبی اور فضیلت وہ بھی ہے جسے امام مسلم نے اپنے صحیح میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی)۔
اس کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ جمعہ کے دن فجر کی نماز میں سورہ سجدہ اور سورہ انسان پڑھنا مشروع ہے،شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے نقل کرتے ہوئے ابن القیم نے اس کی حکمت کے بارے میں فرمایا کہ : "جمعہ کے دن جو واقع ہوا اور جو اس دن واقع ہوگا اس پر یہ دونوں سورتیں مشتمل ہیں،کیوں کہ یہ سورتیں تخلیق آدم،ذکر آخرت اور بندوں کے حشر ونشر کو شامل ہیں،جو کہ جمعہ کے دن رونما ہوگا، چنانچہ اس دن ان دونوں سورتوں کی قراءت میں امت کے لیے(جمعہ کے دن)جو ہوا اور جو ہونے والا ہے اس کی یاد دہانی ہے”۔انتہی
اس یاد دہانی کا فائدہ یہ ہے کہ نفس عمل اور طاعت وبندگی کے لیے مستعد ہوتا اور تقویت حاصل کرتا ہے ۔
جمعہ کے دن اس روئے زمین پر زندگی اور دنیا کا خاتمہ ہوگا،اور قیامت برپاہوگی،جیساکہ ابھی ہماری نگاہوں سے صحیح حدیث گزری ہے”اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی”۔
اللہ نے اس دن کو اس امت کےلیے خاص کیا ہے،جبکہ ہم سے پہلے کی امتیں اس سے محروم تھیں،چنانچہ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے آپ نے فرمایا:
،،اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے لوگوں کو جمعہ کے پہچاننے کی توفیق نہیں دی۔ (چنانچہ) یہودیوں کے لئے ہفتے کا دن (مقرر) ہوگیا اور عیسائیوں کے لئے اتوار، وہ لوگ (ہفت روزہ عبادت میں) قیامت تک ہم سے پیچھے رہیں گے۔ ہم دنیا والوں میں آخری (امت) ہیں اور قیامت کے دن ہم اول ہوں گے جن کے حق میں تمام مخلوقات سے قبل فیصلہ ہوگا”ایک روایت میں ہے”جن کے درمیان تمام مخلوقات سے قبل فیصلہ ہوگا”اوراس حدیث کو امام بخاری نے تقریبا انہی الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
جمعہ کے دن کی ایک خوبی یہ ہے کہ جمعہ کے دن یا اس کی رات میں سورہ کہف کی تلاوت کرنا مشروع ہے،چنانچہ ابوسعید خدری سے مرفوعا مروی ہے: "جو جمعہ کی رات میں سورہ کہف کی تلاوت کرے گا اس کے لیے اس کے درمیان اور بیت عتیق کے درمیان کی فضا روشن ہوجائے گی”اس حدیث کو امام دارمی نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
امام بیہقی اور امام حاکم کی مرفوع روایت ہے: "جو شخص جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت کرے گا، دوجمعہ کے درمیان اس کے لیے روشنی ہی روشنی ہوگی”۔علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
جمعہ کے ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ جمعہ کے دن اور اس کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے درود وسلام بھیجنا چاہیے،چنانچہ سنن ابی داود اور ابن ماجہ میں مرفوعا حدیث آئی ہے جسے علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے” تمہارے سب سے بہتر دنوں میں سے جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا ،اسی دن چیخ ہو گی، اس لیے تم لوگ اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو، کیوں کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے” ۔ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا درود (صلاۃ) آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ قبر میں بوسیدہ ہو چکے ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے زمین پہ انبیاء کے جسموں کے کھانے کو حرام قرار دیا ہے”۔
امام بیہقی نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:” جمعہ کے دن اور اس کی رات میں میرے اوپر کثرت سے دور بھیاے کرو”۔
ابن القیم نے اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرمایا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسانوں کے سردار ہیں،اور جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے،اس لیے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیےنل کی جو خصوصیت ہے وہ کسی دوسرے دن کو حاصل نہیں،باوجود اس کے کہ (اس کی )دوسری حکمت بھی ہے،اور وہ حکمت یہ ہے کہ تمام طرح کا خیر جو دنیا وآخرت میں اس امت کو حاصل ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہے،چنانچہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لیے دنیا وآخرت کے خیر کو یکجا کردیا ہے،اور سب سے عظیم خیر وبھلائی جو امت محمدیہ کو حاصل ہوگی وہ جمعہ کے دن حاصل ہوگی،کیوں کہ اللہ اسی دن اس امتی کو اس کے منازل اور جنت کے محلوں تک رسائی فرمائے گا،اور جب وہ اس دن جنت میں داخل ہوں گے تو وہ دن ان کےلیے یوم المزید(اضافی انعامات کا دن)ہوگا اور دنیا میں ان کے لیے یہ دن عید کا دن ہے،وہ ایسا دن ہوگا جس دن اللہ ان کی خواہشات اور ضروریات کو پوری کرے گا،اور فریاد کرنے والے کو محروم نہیں کرے گا،یہ تمام چیزیں جن کی انہیں جانکاری ہوئی اور وہ ان سے بہرہ ور ہوئے وہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سبب اور آپ کے ذریعہ حاصل ہوئے،آپ کی شکر گزاری،آپ کی تعریف وتوصیف اور آپ کے قلیل حق کی ادائگیل کا تقاضہ ہے کہ ہم اس دن اور اس کی رات میں آپ پر کثرت سے دور بھیجیں۔(انتہی کلامہ)۔
اللہ مجھے اور آپ کو قرآن وحدیث اور ان میں موجود ہدایت وحکمت کی باتوں سے فائدہ پہنچائے،اللہ سے توبہ واستغفار کیجیے یقینا وہ بہت زیادہ بخشنے والا ہے۔
دوسرا خطبہ:
الحمدللهحمداكثيراطيبامباركافيه،وصلىاللهوسلمعلىرسولهالأمينوعلىآلهوصحبهأجمعين.
حمد وصلاة کے بعد:
اے باوقار لوگو!اس دن کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس دن ایک ایسی گھڑی بھی ہوتی ہے جس میں دعا قبول ہوتی ہے،چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے،رسول اللہ ﷺ نے جمعہ کے دن کا ذکر فرمایا: ،،اس میں ایک ایسی گھڑی ہے کہ اگر ٹھیک اس گھڑی میں بندہ مسلم کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور عطا کرتا ہے،،۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ وہ گھڑی تھوڑی دیر کے لیے آتی ہے۔
جمعہ کے دن قبولیت دعا کی گھڑی کی تحدید کے تعلق سے علمائے کرام کے مختلف اقوال ہیں،ان اقوال میں دو اقوال زیادہ قوی ہیں:پہلا قول:وہ گھڑی جمعہ کی دوسری اذان اور نماز کے اختتام کے مابینہوتی ہے، اس قول کے قائلین نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی مروی حدیث سے استدلال کیا ہے وہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جمعہ کی گھڑی کے بارے میں یہ بیان کرتے ہوئے سنا: "یہ امام کے بیٹھنے سے لے کر نماز مکمل ہو نے کے درمیان ہے”۔اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔علامہ عثیمین نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، کوئی پوچھ سکتا ہےکہ خطیب(کے منبر)پر داخل ہونے کے دوران کب دعا کرے،آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ وہ دوخطبوں کے درمیان سری طور پر دنیا وآخرت کی جو چاہے دعا کرے،اسی طرح جمعہ کی نماز میں سجدوں کی دعائے ماثورہ پڑھنے کے بعد سجدہ میں جو چاہے دعا کرے،اسی طرح تشہد میں تشہد کی ثابت شدہ دعا کی ادائگیم کے بعد جو چاہے دعا کرے”۔ انتہی
دوسرا قول:وہ گھڑی عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک کے درمیان ہوتی ہے۔
اس قول کے قائلین جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جمعہ کا دن بارہ ساعتوں (گھڑیوں) پر مشتمل ہے، اس کی ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں جو بھی مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے ہوئے پایا جاتا ہے، تو اسے وہ دیتا ہے، تو تم اسے آخری گھڑی میں عصر کے بعد تلاش کرو۔
اس حدیث کو امام ابوداود اور امام نسائی نے روایت کیا ہے،اور امام نووی اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اور دوسری دلیلوں سے بھی ان حضرات نے استدلال کیا ہے،اور یہی موقف صحابہ کرام میں حضرت ابو ہریرۃ اور عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہما کا بھی ہے،امام احمد ،امام ابن القیم اور دیگر حضرات نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے،شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ آیا ہے کہ وہ گھڑی عصر کی نماز اور غروب آفتاب کے مابین ہوتی ہے،جبکہ بعض حدیثوں میں آیا ہے کہ وہ گھڑی جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے،تمام حدیثیں صحیح ہیں،ایک حدیث دوسری حدیث کی منافی نہیں ہے،چنانچہ سب سے مناسب اور قریب تر گھڑی وہ ہے جو منبر پر بیٹھنے اور نماز کے خاتمے کے درمیان ہوتی ہے،اور عصر کی نماز کے بعد سے غروب آفتاب تک کے مابین ہوتی ہے،یہ اوقات دعا کی قبولیت کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔(انتہی کلامہ)۔
سعید بن جبیر جب عصر کی نماز سے فارغ ہوتے تو اس وقت تک کسی سے گفتگو نہیں کرتے تھے جب تک کہ آفتاب غروب نہ ہوجاتا،چنانچہ مسلمان کے لیے مناسب ہے کہ وہ ان دو اوقات میں اپنے لیے،اپنے والدین،اپنے اہل خانہ،اور مسلمانوں کے لیے دنیا وآخرت کی بہتری کی خاطر دعا کا اہتمام کرے،خواہ یہ دعامسجد میں ہو یا گھر میں،گاڑی میں ہو یا دیگر اور جگہوں میں۔
صلى اللہ علیہ وسلم

از قلم:
فضیلۃ الشیخ حسام بن عبد العزیز الجبرین