بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلاصہ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 11/ رمضان المبارک 1429ھ11 /ستمبر 2008م
حاکموں کے حقوق
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ، ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني .
( صحيح البخاري : 7137 ، الأنعام / صحيح مسلم : 1835 ، الإمارة )
ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔
کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئےایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو ،
اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے ، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہیکہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں ،
آج کی مجلس میں رعایا پر حاکم کے حقوق و فرائض کا ذکر ہے ۔
[ 1 ] سننا اور ماننا : جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد بشر پر واجب ہے ، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے :
یا ایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر منکم ۔ اے مومنو ! اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور انکی جو امیر و حاکم ہیں ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے [ ہر کام میں ] خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند ، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے ،
پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے ۔
[ بخاری ومسلم بروایت عبد اللہ بن عمر ] ۔۔۔۔۔۔
ایک دوسری روایت میں ہیکہ جب ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے ہاتھ پر اس بات پر بیعت کرتے تھے کہ ہم آپ کی بات سنیں گے اور مانیں گے تو آپ فرماتے تھے : ان چیزوں میں جنکی طاقت رکھتے ہو ۔
[ بخاری ومسلم بروایت ابن عمر ] ۔
[ 2 ] خیر خواہی اور نصیحت : انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دین خیرخواہی کا نام ہے ، پوچھا گیا کس کی خیرخواہی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی ، اللہ کے رسول کی ، اللہ کے کتاب کی ، مسلمانوں کے حاکموں کی اور عام مسلمانوں کی
[ صحیح مسلم ، بروایت تمیم داری ]
ایک اور حدیث میں ہے کہ اللہ تعالی تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے [ ان میں سے ایک چیز یہ ہے ] اپنے حاکموں کے ساتھ نصیحت کا معاملہ رکھو ۔
[ احمد ، ج : 2 ، ص : 367 بروایت ابوہریرہ ]
[ 3 ] انکے ساتھ تعاون : اس معنی میں کہ انکے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے کچھ حقوق یا مال ہو رہے ہوں تو انکی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھیچیں ۔
ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا : تم انکی بات سنو اور مانو ، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے ۔
[ صحیح مسلم : 1846 ، بروایت وائل بن حجر ]
[ 4 ] عدم بغاوت اور انکے لئے دعا : اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے ، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے ۔
فرمان نبوی : تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو ، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں [ ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ] اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا ۔
[ مسلم : 1855 ، بروایت عوف بن مالک ]
ختم شدہ