حج بدل/حديث نمبر :229

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :229

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :22/23/ ذو القعدہ 1433 ھ، م 09/08،اکٹوبر 2012م

حج بدل

عن أبي رزين العقيلي أنه أتى النبي صلى الله عليه و سلم فقال: يا رسول الله إن أبي شيخ كبير لا يستطيع الحج و لا العمرة و لا الظعن، قال ( حج عن أبيك واعتمر ).

(سنن ابوداود:1810، سنن الترمذي:930،سنن النسائي:2621، سنن ابن ماجة:2906.)

ترجمہ : حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا : اے اللہ کے رسول میرے باپ بہت بوڑھے ہیں ، حج و عمرہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی سواری پر بیٹھ سکتے ہیں ؟ { تو کیا میں ان کی طرف سے حج و عمرہ کروں ؟ } آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کی طرف سے حج و عمرہ کرو ۔

{ سنن اربعہ } ۔

تشریح : حج بیت اللہ ایک اسلامی فریضہ اور دین کا ایک اہم رکن ہے ، اور ہر اس مسلمان پر جو صاحب استطاعت ہے اس گھر کا حج فرض ہے، اس میں کوتاہی نہ صرف یہ کہ بہت بڑا گناہ ہے بلکہ اپنے دین سے باغی بنا دینے کے ہم معنی ہے، حتی کہ اگر کوئی شخص مالی لحاظ سے صاحب استطاعت ہے لیکن صحت ساتھ نہیں دیتی تو بھی اس پر حج فرض ہے اور اسے چاہئے کہ کسی کو اپنی طرف سے حج کرنے کے لئے بھیجے ،اور اگر کوئی شخص استطاعت کے باوجود وفات پایا جاتا ہے تو اس کے ورثہ کو چاہئے کہ اس کے ترکہ سے اس کی طرف سے حج کا انتظام کریں ۔ اس سلسلے متعدد حدیثیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہیں جن میں سے ایک زیر بحث حدیث بھی ہے، بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرض سے تشبیہ دی ہے کہ جس طرح قرض کا ادا کرناورثہ پر واجب ہے اسی طرح میت کی طرف سے حج کرنا بھی ورثہ پر میت کا حق ہے ،چنانچہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتا ہے کہ میری بہن نے حج کرنے کی نذر مانی تھی لیکن اپنی نذر پوری کرنے سے قبل وفات پاگئی [ تو اس بارے میں کیا حکم ہے ؟ ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیری بہن پر کوئی قرض ہوتا تو کیا تو اسے ادا کرتا؟ اس نے جواب دیا : ضرور ادا کرتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تو اللہ تعالی کا قرض زیادہ حقدار ہے کہ اسے ادا کیا جائے ۔

{ بخاری ، بروایت ابو ہریرہ } ۔

اس حدیث سے حج بدل کی اہمیت ثابت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے آج اس بارے میں لوگ غلو و تقصیر کے شکار ہیں، کچھ لوگ تو ایسے ہیں کہ بلا ضرورت بھی ورثہ کی طرف سے حج و عمرہ ادا کرتے ہیں اور کچھ لوگ ضرورت و اہمیت کے باوجود اس طرف توجہ نہیں دیتے ، صورت مسئلہ کو واضح کرنے کے لئے ہم مسئلے کو درج ذیل نکات میں بیان کرتے ہیں :

[۱] اگر کوئی شخص مالی و بدنی دونوں لحاظ سے صاحب استطاعت تھا اور حالات بھی سازگار تھے لیکن اس نے حج نہیں کیا اور وہ کچھ مال چھوڑ کر جارہا ہے تو ورثہ پر واجب ہے کہ اس کی طرف سے خو د حج کریں یا کسی کو اس کی طرف سے حج بدل کے لئے بھیجیں ۔

[۲] اگر کوئی شخص صاحب استطاعت تھا لیکن حج نہیں کیا اور انتقال کرگیا لیکن اپنے ترکہ میں اتنا مال نہیں چھوڑا ہے جس سے اس کی طرف سےحج بدل کیا جاسکے تو ورثہ پر اس کی طرف سے حج کرنا واجب تو نہیں ہے ، البتہ مستحب اور میت کے ساتھ حسن سلوک کا ایک حصہ ضرور ہے ۔

[۳] اگر کسی شخص کے پاس استطاعت نہیں تھی اور اسی حال میں انتقال کرگیا تو اس کی طرف سے حج کرنا سنت و مستحب تو نہیں ہے البتہ جائز ہے ، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنے سوال کئے گئے ہیں وہ سب حج فرض سے متعلق تھے اور اسی پر صحابہ کا عمل رہا ہے ۔

[۴] حج بدل کے لئے شرط یہ ہے کہ جس کی طرف سے حج کیا جارہا ہے وہ وفات پاچکا ہو ، یا ایسا بیمار ہو کہ وہ کسی بھی صورت میں مکہ مکرمہ پہنچنے کی طاقت نہ رکھتا ہو، نیز اس کے صحت یاب ہونے کی امید بھی نہیں ہے ۔

[۵] نیز جو شخص کسی کی طرف سے عمرہ یا حج بدل کررہا ہے وہ پہلے اپنی طرف سے حج و عمرہ کرچکا ہوں ، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یوں کہتے سنا کہ ” لبیک عن شبرمہ ” ؟ شبرمہ کی طرف سے لبیک ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شبرمہ کون ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میرا بھائی یا میرا قریبی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سوال کیا : کیا تم نے اپنا حج کرلیا ہے ؟ اس نےجواب دیا ؟ نہیں ، تو آپ نے فرمایا : پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر بعد میں شبرمہ کی طرف سے کرنا ۔

{ سنن ابوداود ، سنن ابن ماجہ } ۔

[۶] آج کل یہ رسم چل چکی ہے کہ آدمی اپنی طرف سے ایک بار عمرہ یا حج کرلینے کے بعد جب دوسری بار حج یا عمرہ کا موقعہ ملتا ہے تو اپنے کسی عزیز کی طرف سے عمرہ یا حج کرنا چاہتا ہے حالانکہ اس عزیز پر عمرہ یا حج واجب نہیں ہوتا ، یہ عمل سنت کے خلاف ہے ، بلکہ زندہ اپنے اعمال خیر کا غیر کے مقابلہ میں زیادہ محتاج ہے ۔

فوائد :

۱- میت کی طرف سے قرض کی ادائیگی ورثہ کا اہم فریضہ اور والدین کے ساتھ حس سلوک میں داخل ہے ۔

۲- حج بھی ایک قسم کا قرض ہے لہذا ورثہ کو اس کی ادائیگی میں پہل کرنا چاہئے ۔

۳- حج وعمرہ میں مرد عورت کی اور عورت مرد کی نیابت کرسکتے ہیں ۔

۴- جو شخص اس لائق ہے کہ کرسی وغیرہ پر بیٹھ کر حج و عمرہ کے ارکان ادا کرسکتا ہے اس کی طرف سے حج و عمرہ جائز نہیں ۔

ختم شدہ