بسم الله الرحمن الرحيم
خلاصہ درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 4/ رمضان المبارک 1429ھ م04/ستمبر 2008م
رسول اللہ r کے حقوق
عن أبي هريرة رضي الله عنه قال :قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : والذي نفس محمد بيده لا يسمع بي أحد من هذه الأمة يهودي ولا نصراني ثم يموت ، ولم يؤمن بالذي أرسلت به إلا كان من أصحاب النار .
( صحيح مسلم : 153 ، الإيمان / مسند أحمد ، ج : 2 ، ص: 317 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] کی جان ہے اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو یا نصرانی ، میرے بارے میں سن لیتا ہے پھر مرجاتا ہے اور میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے ۔
تشریح : ہر عقلمند اور صاحب ایمان جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں جن خیرات و برکات سے نوازا ہے وہ شمار سے باہر ہیں ، وہ خیرات صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ آخرت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت و غیرہ کی شکل میں ظاہر ہوں گی ، اس پر غور کرلینے کے بعد ہر صاحب بصیرت اس بات کا اعتراف کرلے گا کہ اللہ تبارک و تعالی کے بعد سب سے زیادہ اور سب سے بڑا حق اسکے رسول حضرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔
امت پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق :
[ ۱ ] ایمان لانا : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے پہلا اور سب سے اہم حق یہ ہیکہ آپ کو اللہ تعالی کا رسول مانا جائے ، آپ کی لائی ہوئی تعلیمات و ہدایات کو دل و جان سے قبول کیا جائے اور آپ کو اس دنیا کا آخری نبی تسلیم کیا جائے
اوپر مذکور حدیث میں یہی حقیقت واضح کی گئی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کے مفہوم میں چار چیزیں داخل ہیں :
۱- آپ کی بتائی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنا ۔
۲- جس چیز کا حکم دیں اسمیں آپ کی اطاعت کرنا ۔
۳- جس چیز سے روک دیں اس سے رک جانا ۔
۴ – آپ کی لائی ہوئی شریعت کے مطابق اللہ کی عبادت کرنا ۔
[ ۲ ] محبت : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حق یہ بھی ہےکہ آپ کی اطاعت و فرمانبرداری محبت کے جذبے سے کی جائے ، لا یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ و ولدہ و الناس اجمعین ۔ [ صحیح بخاری ، صحیح مسلم بروایت انس ] تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسکے نزدیک اسکی اولاد اسکے والد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاوں ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا تقاضہ یہ ہیکہ :
۱- آپ کی پیروی کی جائے ۔
۲ – کثرت سے آپ پر درود بھیجا جائے ۔
۳ – آپ کو کثرت سے یاد کیا جائے ۔
۴ – آپ کے دیکھنے کی تمنا کی جائے ۔
۵ – آپ کی محبوب چیزوں اور شخصیات سے محبت کی جائے ۔
[ ۳ ] تعظیم و توقیر : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر بھی آپ کے حقوق میں داخل ہے ، ارشاد باری تعالی ہے :
إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِيراً (8) لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلاً (9)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر میں یہ بھی داخل ہے کہ :
۱- آپ کے فرمان و حدیث کی تعظیم کی جائے ۔
۲ – آپ کی مسجد کی تعظیم کی جائے ،
۳ – آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن چیزوں اور شخصیات کا حکم دیا ہے انکی تعظیم کی جائے ۔
[ ۴ ] دفاع کرنا اور مدد کرنا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم حق یہ ہے کہ ہر مسلمان اپنے جان و مال سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد اور آپ کی طرف سے دفاع کرے ۔
” ألا تنصروه فقد نصره الله ” ( التوبة )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع میں درج ذیل امور بھی داخل ہیں :
أ- آپ کی تعلیمات اور سنت کی طرف سے دفاع ۔
ب- آپ کی ازواج مطہرات کی طرف سے دفاع ۔
ت- آپ کے صحابہ کرام کی طرف سے دفاع ۔