بسم اللہ الرحمن الرحیم
313:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
سلسلہ کبائر [16]
غیبت اور چغلی ،لعنت ، دھوکہ اور بے عہدی
بتاریخ : 10/ جمادی الاول 1438 ھ، م 07، فروی 2017 م
عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»
( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885
42- غیبت اور چغلی : غیبت کی تعریف یہ ہے کہ اپنے بھائی کا عیب اس کے پیٹھ پیچھے بیان کیا جائے ، اور چغلی یہ ہے کہ دو ساتھیوں یا بھائیوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے کے لئے ایک کی بات دوسرے تک پہنچائی جائے ۔
چونکہ دونوں معنی قریب قریب ہیں اور دونوں صورتوں میں اپنے مسلمان بھائی کا عیب اور اس سے متعلقہ باتیں دوسروں سے کہنا ہے جسے وہ پسند نہیں کرتا ، لہذا دونوں کا ذکر ایک ساتھ کیا جاتا ہے ، پھر چونکہ یہ دونوں عمل مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کے خلاف ہیں اس لئے شریعت میں ان سے سختی سے روکا گیا ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے : وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ۔ الآیۃ۔ الحجرات
اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے ، تم کو اس سے گھن آئے گی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار میں نے نبی ﷺ سے حضرت صفیہرضی اللہ عنہا[ام المومنین] کے بارے میں صرف اتنا کہہ دیا کہ وہ ناٹی، پستہ قد ہیں تو آپ ﷺ ناراض ہوئے اور فرمایا : تو نے ایسی بات کہی کہ اگر اسے سمندر میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بدل جائے ۔ {سنن ابو داود ، سنن الترمذی } ۔ آیت اور حدیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ غیبت و چغلی کس قدر برے گناہ ہیں ، بلکہ حدیثوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ غیبت و چغلی کی وجہ سے عالم برزخ میں دردناک عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کا گزر دو قبروں کے پاس سے ہوا ، تو فرمایا :ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے اور ان کو عذاب کسی بڑی یا مشکل بات کی وجہ سے نہیں ہورہا پھر فرمایا : کیوں نہیں وہ بڑی بات ہی ہے ، ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے ، وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے ، تو میں نے پوچھا : جبریل ! یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت جبریل علیہ السلام نے جواب دیا : یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے [غیبت کرتے ] ہیں اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں ۔ {سنن ابو داود } ۔
لہذا اگر کوئی شرعی مصلحت نہ ہو جیسے اصلاح یا مشورہ دینا وغیرہ تو جس طرح غیبت کرنا حرام ہے اسی طرح غیبت کا سننا بھی جائز نہیں ہے ۔
۴۳- لعنت کرنا : "لعن” کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دوری، اور کسی پر لعنت کرنے کا معنی ہے کہ اس کے لئے اللہ تعالی کی رحمت سے دوری اور محرومی کی دعا کرنا ۔
اور یہ بات معلوم ہے کہ کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اللہ تعالی کی رحمت سے کون شخص دور ہے اور رحمت الہی کس کے قریب ہے ، کیونکہ بہت ممکن ہے کہ ایک شخص وقتی طور کسی ایسے عمل کا ارتکاب کررہا ہے جو موجب لعنت ہے لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ وفات سے قبل اللہ تعالی کی رحمت اس پر ہوجائے اور وہ اپنے اس عمل کے بدلے توبہ کرلے، اوراسی کے برعکس بھی۔ یہی وجہ ہے کہ شرع میں کسی شخص معین پر لعنت کرنا اس وقت تک جائز نہ ہوگی جب تک کہ اس کا معلون ہونا اللہ اور اس کے رسول سے ثابت نہ ہوجائے ، جیسے فرعون ، ابو جہل و ابو لہب اور ابلیس وغیرہم ۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے :تم ایک دوسرے پر اللہ تعالی کی لعنت، اس کے غضب اور جہنم کے آگ کی دعا نہ کرو۔ {سنن ابو داود ، سنن الترمذی بروایت سمرہ }۔ ایک اور حدیث میں بیان فرمایا : اور مسلمان پر لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے برابر ہے ۔ {صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت زید بن ثابت }۔ یعنی لعنت کرنے کا گناہ قتل کرنے کےگناہ کے برابر ہے ، صرف اسی ایک حدیث سے لعنت کرنے یا مردود قرار دینے کی قباحت کا اندازہ ہوسکتا ہے ، بلکہ لعنت دیگر باتوں سے اس حیثیت سے مختلف ہے کہ جس پر لعنت بھیجی جارہی ہے اگر وہ شخص اللہ تعالی کے نزدیک لعنت کا مستحق نہیں ہے تو خود لعنت کرنے والے کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے ، چنانچہ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے تو لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے ، لیکن اس کے لئے آسمان کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں ، پھر وہ لعنت زمین کی طرف اترتی ہے تو اس کے لئے زمین کے دروازے بھی بند کردیئے جاتے ہیں ، پھر وہ لعنت دائیں اور بائیں سمت اختیار کرتی ہے ، پھر جب کوئی گنجائش نہیں پاتی تو اس کی طرف لوٹتی ہے جس پر لعنت کی گئی ہوتی ہے ، پس اگر وہ چیز اس لعنت کی مستحق ہوتی ہے تو اس پر پڑتی ہے ورنہ وہ لعنت کرنے والے کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔ {سنن ابو داود } اس سے معلوم ہوا کہ کسی پر لعنت کرنا ایسا فعل ہے کہ خود لعنت کرنے والا انسان اس کا ہدف بن سکتا ہے ، یہ تو دنیا کا معاملہ ہے ، البتہ قیامت کے دن اس کا شمار ان فاسق اور بے اعتبار لوگوں میں ہوگا جن کی سفارش کا موقعہ نہ دیا جائے گا، ارشاد نبوی ہے : لعن طعن کرنے والے قیامت کے دن نہ سفارشی ہوں گے اور نہ اس کی گواہی قبول کی جائیں گی ۔ {صحیح مسلم بروایت ابو درداء } ۔
44- دھوکہ دینا اور عہد کو پورا نہ کرنا : بظاہر یہ دو چیزیں ہیں لیکن حقیقت میں ایک ہی ہیں یعنی کسی مسلمان کا ساتھ دینے ، اس کی مدد کرنے ، حق کے کاموں میں اس کی اطاعت کرنے کا وعدہ کرنا اور پھر کسی دنیاوی مصلحت یا ذاتی عداوت کی وجہ سے توڑ دینا ، اس کی سب سے اعلی اور خطرناک صورت امام وقت اور حاکم زمانہ کے خلاف بغاوت ہے ، اس کے نیچے وعدہ خلافی کی سیکڑوں صورتیں ہوسکتی ہیں ، ارشاد باری تعالی ہے : وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (34)الاسراءاور وعدے پورے کرو ،کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے ۔
نبی ﷺ کا ارشاد ہے : چار خصلتیں جس شخص میں ہوں گی وہ حقیقی منافق ہوگا اور جس میں ان چار چیزوں میں سے کوئی ایک خصلت ہوگی اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی ، یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے ، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے ، جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، جب عہد کرے تو دھوکہ دے اور جب جھگڑے تو زیادتی سے کام لے ۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم بروایت ابن عمرو } ۔
ایک اور حدیث میں ہے ، قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے سرین کے پاس ایک جھنڈا ہوگا اور جس قدر دھوکہ دیا ہوگا اسی لحاظ سے اسے اونچا رکھا جائے گا اور یاد رہے کہ جو امیر بن کر رعایا کو دھوکہ دے گا اس سے بڑا دھوکہ کسی کا نہیں ہوسکتا ۔ {صحیح مسلم ، بروایت ابو سعید }