غير مسلموں کے حقوق – سلسلہ حقوق: 18

[author title=”شيخ مقصود الحسن فيضي” image=”https://www.islamidawah.com/wp-content/uploads/2017/05/157.png”][/author]

 

عن عبد الله بن عمرو رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :من قتل نفسامعاهدالم يرح رائحة الجنة وان ريحها ليوجدمن مسيرة أربعين عاما۔

{ صحيح البخاري :٦٩١٤الديات،سنن النسائي ،سنن ابن ماجہ :٢٦٨٦الديات}

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا : جس نے کسی عہد والے شخص کو قتل کيا تو وہ جنت کی خوشبو بہی نہ پائے گا۔ حالانکہ جنت کی خوشبو چاليس سال کی مسافت سے محسوس کی جاتی ہے ۔

{صحيح بخاری و النسائی}

ايک انسان پر دوسرے انسانوں کے بحثيت انسانی برادری کے بہی کچہ و حقوق فرائض ہيں جنہيںپورا کرنا ہر مسلمان کا مذہبی فريضہ ہے، اسلامی نقطئہ نظر سے يہ کوئی ضروری نہيں ہے کہ جوہمارا رشتہ دار ہو ،ہماراقرابت دارہو ،ہماراہم مذہب ہو يا ہمارا پڑوسی ہو اسکے ہی حقوق اداکئےجائيں اورہر ايسا شخص جس سے ہمارا کوئی تعلق نہ ہو اسکے ساتہ عدل وانصاف کا معاملہ رکہا جائے اور نہ ہی اسکے کسی قسم کے حقوق کی پرواہ کی جائے ،بلکہ اسلام ہميں اس بات کی تعليم ديتا ہے کہ:وقولو للناس حسنا {البقرة ٨٣}اور لوگوںسے اچہی باتيں کہنا ۔ واحب للناس ماتحب لنفسك تكن مسلما{الترمذی بروايت ابو ہريرة } اور لوگوں کيلئے وہی کچہ پسند کرو جواپنے لئے پسند کرتے ہو تو کامل مسلمان بن جاوگے،

اس بنياد پر ايک غير مسلم کے بہی ہم مسلمانوںپر کچہ حقوق ہيں جنکا پاس ولحاظ رکہنا ضروری ہے،

١:عقيدہ کی آزادی :لاإكراہ في الدين قدتبين الرشد من الغي،{البقرة} دين کے بارے ميں کوئی زبر دستی نہيں ہدايت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے ،

اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم کی آمد سے قبل يثرب کے باشندے اوس وخزرج {جو بعد ميں انصار کہلائے}ميں سے اگر کسی عورت کا بچہ زندہ نہ رہتا تو وہ نذر مانتی کہ اگر ميرا بچہ زندہ رہ گيا تو ميں اسے يہودي بناؤں گی ، بنا بريں ايسے بہت سے بچے مدينہ منورہ ميں تہے ،چناچہ جب يہود بنونضير کو مدينہ منورہ سے جلاوطن کيا گيا تو انکے ساتہ کچہ انصاری بچے بہی تہے ، انصار نے کہا: اب ہم اپنے بچوں کو تمہارے ساتہ جانيں نہ ديں گے، انہيں زبردستی روکنا اوريہوديت سے پہيرنا چاہا جس پر مذکورہ آيت نازل ہوئی ،

{سنن ابوداود بروايت ابن عباس }

٢ : عبادت ميں آزادی : جو کافر جس مذہب کا قا ئل ہے اسے اسکے مطابق عبادت کی آزدی حاصل ہو تی ہے،اسے زبردستی روکا نہ جائے ، بلکہ اگر شرک وکفرنہيں تو اس بارے میں انکی مدد بہی کی جاسگتی ہے ، يہی وجہ ہے کہ شرعی نقطئہ ونظرسے انکی عبادت گاہوں کو مسمار نہ کيا جائيگا ، اسی لئے مسلمان خليفہ اپنے فوجيوں کو کنيسہ اور يہود ومجوس کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے سے روکتے رہے ہيں { کتاب الخراج ابي يوسف}

نيزايک حديث ميں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے يہود سے فرمايا :اور يہود تم خاص کرہفتہ کے دن کا احترام کرو۔

{ الترمذی ۔النسائی ،احمد٢/٢٣٩ص}

٣: جان ومال کی حفاظت: اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم نے ارشاد فرمايا : جس نے کسی عہد والے کو بغير کسی وجہ جواز کے قتل کيا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردي، {سنن ابو داود ، سنن نسائی بروايت ابو بکرة}حتی کہ علماء کہتے ہيں کہ اگر کوئی ذمی وار الاسلام چہوڑ کر چلاجائے تو بہی اسکی اولاد اور مال کی ضمانت باقی رہتی ہے ،

{فقہ السنة ٢/ص٦٩٨}

٤: حسن سلوک: ارشاد باری تعالی ہے : لاينها كم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين ولم يخرجوكم من دياركم أن تبروہم وتقسطواإليہم ان الله يحب المقسطين:{الممتحنة٨٨}اللہ تعالی تمہيں اس بات سے نہيں روکتا کہ تم ان لوگوں کے ساتہ نيکی اور انصاف کا برتاوکروجنہوں نے دين کے معاملہ ميں تم سے جنگ نہيں کی اور تمہيں تمہارے گہروں سے نہيں نکالاہے،اللہ تعالی انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے،

اس حق کا تقاضاہے،[١] انکے ساتہ عام رحمت کا برتاوکيا جائے، جيسے بہوکے کو کہلانا ، پياسے کو پلانا، مريض کا علاج کرنا وغيرہ ، ارشاد نبوی ہے : تم اہل زمين پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کريگا ،{ابوداود ،الترمذی بروايت عبد اللہ بن عمرو}ايک اور جگہ ارشاد ہے : تم لوگ پورے مومن اس وقت تک نہيں ہو سگتے جب تک کہ ايک دوسرے پر رحم نہ کرو : صحابہ نے عرض کيا : اے اللہ کے رسول ہم ميں سے ہر شخص رحم کرتا ہے ۔ آپ نے فرمايا : يہ رحمت نہيں ہے کہ کوئی شخص اپنے ساتہی اور دوست پر رحم کرے بلکہ رحمت بالکل عام ہونی چاہئے،

{الطبرانی بروايت ابوموسی}

] انکے ساتہ ظلم کا برتاو نہ کيا جائے : حديث قدسی ميں ارشاد نبوی ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے بندو: ميں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کيا ہے اسلئے تم لوگ بہی ايک دوسرے پر ظلم نہ کرو،{صحيح مسلم بروايت ابوذر} ايک اور حديث ميں فرمايا :جس نے کسی عہد والے پر ظلم کيا،يا اسکی تنقيص کی،يا اسکی طاقت سےزيادہ اس پر بوجہ ڈالا ، يا اسکی رضامندی کے بغير اس سے کوئی چيز لے لی تو قيامت کے روز ميں اسکی طرف سے جہگڑوں گا،

{سنن ابوداود بروايت صفوان بن سليم }

] اسے ہديہ دياجائے اور اسکا ہديہ قبول کيا جائے:اللہ کے رسول صلی اللہ عليہ وسلم، يہود اور ديگر کافروں کاہديہ قبول بہی کرتے تہے اور انہيں ہديہ ديتے بہی تہے ،

{صحيح البخاری باب نمبر٢٨ و٢٩ مشرکين کاہديہ قبول کرنا ،مشرکين کوہديہ دينا،}

] انکے سلام کا جواب دينا بشرطيکہ واضح الفاظ ميں سلام کريں ، يهديكم الله ويصلح بالكم کہکر انکے چہينک کا جواب دينا ، {الادب المفرد}

] اگر مصلحت پيش نظر ہو تو انکی دعوت قبول کی جا ئے، انہيں دعوت دی جائے اور انکی عيادت وغيرہ کو جايا جائے،

٥: تعليم دينا : ارشاد باری تعالی ہے : كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون باالمعروف وتنهون عن المنكروتؤمنون بالله ، تم لوگ بہترين امت ہو جنہيں لوگوں کی ہدايت واصلاح کے لئے پيدا کيا گيا ہے ، تم نيکی کا حکم ديتے ہو،بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ايمان رکہتے ہو ،

اس آيت کی تفسير کرتے ہوئے حضرت ابوہريرہ نے فرمايا : تم سب سے بہتر ہو لوگوں کيلئے کہ انہیں زنجيروں ميں ڈال کر لاتے ہو اور وہ لوگ اسلام ميں داخل ہو جاتے ہيں{ صحيح البخاری ٤٥٥٧}

ختم شدہ