ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کی حقیقت

ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کی حقیقت

{ کتب سیر و تواریخ کی روشنی میں }

حافظ صلاح الدین یوسف

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ” صفر ” ہے ، اس مہینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مرض کا آغاز ہوا تھا (1) جس سے پھر آپ صلى الله عليه وسلم صحت یاب نہ ہوسکے، تا آنکہ اس کے بعدشروع ہونے والے مہینے {ربیع الاول} کی بارہ تاریخ کو آپ دنیا سے تشریف لے گئے ، جیسا کہ ذیل کی تاریخی حوالے سے واضح ہے ۔

ثم بدأ برسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات منه يوم الأربعاء، لليلتين بقيتا من صفر سنة إحدى عشرة في بيت ميمونة، ثم انتقل حين اشتد مرضه إلى بيت عائشة، رضي الله عنها، وقبض يوم الاثنين ضحى في الوقت الذي دخل فيه المدينة لاثنتي عشرة خلت من ربيع الأول.(أسد الغابة 1/33.34 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بیماری کا آغاز جس میں آپ صلى الله عليه وسلم کی وفات ہوئی ، 11ھجري کے اواخر صفر میں بدھ کے دن جب کہ ماہ صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں حضرت ام المومنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ہو ا ، پھر جب آپ صلى الله عليه وسلم کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ صلى الله عليه وسلم حضرت عائشہ کے گھر منتقل ہو گئے ، اور بارہ ربیع الاول بروز پیر بوقت چاشت جس وقت آپ صلى الله عليه وسلم مدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ صلى الله عليه وسلم کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ بر صغیر پاک وہند کے بہت سے مسلمان گھرانوں میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ وہ صفر کے آخری بدھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ” یوم غسل صحت ” کے طور پر مناتے ہیں ، اس روز صبح سویرے باغوں کی چہل قدمی کو اجر وثواب کا باعث سمجھتے ہیں ، اور اس خوشی میں بہت سی جگہ تعطیل بھی ہوتی ہے ، اور اب چند سالوں سے چہار شنبہ کا جلوس بھی لکتا ہے ۔

اول تو ” یوم ” منانے کی رسم کا کوئی تعلق ہی اسلام سے نہیں ہے ، یہ خالص فرقوں کا شعار ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد سعادت اور خیر القرون میں بڑے بڑے اہم واقعات رونما ہوئے ، بڑے بڑے معر کے مسلمانوں نے اللہ تعالی کی تائید ونصرت اور اپنی ایمانی قوت سے سر کئے ، اور الوالعزمی و سرفروشی کے انمٹ نقوش جریدہ عالم پر ثبت کئے لیکن ان میں سے کسی اہم واقعے اور فتح کو ” یوم ” کے طور پر نہیں منایا گیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پورا دور رسالت بھی اس سے خالی ہے ، خلافت راشدہ میں اس کا نام و نشان نہیں ملتا ، اور اس کے بعد کے عہد صحابہ رضی اللہ عنہ وتابعین میں بھی اس قسم کی کوئی چیز نہیں ملتی اس لئے یہ ” یوم غسل صحت ” سراسر خانہ ساز ہے ، جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے ۔

علا وہ ازیں تاریخی طور پر بھی یہ بات خلاف واقعہ ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا ، بلکہ اس کے بر عکس تاریخوں میں یہ صراحت کی گئی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی مرض الموت کا آغاز ماہ صفر کے بالکل آخر میں { جب کہ اس کی چند راتیں یا صرف دوراتیں باقی رہ گئی تھیں } ہو ا ، بعض تاریخوں میں اسے یوم اربعاء {بدھ کا دن } قرار دیا گیا ہے ، یا بقول بعض ربیع الاول کی ابتداء میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور پھر بیمار ہی رہے ، یہاں تک کہ بارہ ربیع الاول سوموار کو دنیا سے رحلت فرماگئے {ملاحظہ ہو تاریخ الطبری: جلد 3/185 طبع جدید ، سیرت ابن ہشام:4/443 ، طبقات ابن سعد جلد 3 القسم الثانی صفحہ 11 ، البدایہ والنہایہ 5/333-334 ، اسد الغایہ 1/ 33 -34 طبع قدیم ، اور دیگر کتب تواریخ }

مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کا اعتراف اور صراحت

علاوہ ازیں خود بریلویوں کے ” امام” احمد رضا خان بریلوی بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں ۔

چنانچہ ان سے جب آخری چہار شنبہ کے بابت سوال کیا گیا ،

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ صفر کے اخیر چہار شنبہ کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض سے صحت پائی تھی ، بنا پر اس کے اس روز کھانا و شیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کی سیر کرتے ہیں ۔ علی ہذا القیاس مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں ، کہیں اس روز کو نحس و مبارک جان کر گھر کے پرانے برتن گل توڑ ڈالتے ہیں ، اور تعویذ چھلا چاندی کے اس روز کی صحت بخشئ جناب رسول اللہ میں مریضوں کو استعمال کراتے ہیں ، یہ جملۃ امور بربنائے صحت پانے رسول اللہ عمل میں لائے جاتے ہیں ، لہذا اصل اس کی شرع میں ثابت ہے کہ نہیں ؟ اور فاعل عامل اس کا بر بنائے ثبوت یا علم مرتکب معصیت ہوگا یا قابل علامت وتادیب ؟

تو مولانا احمد رضا خان بریلوی نے حسب ذیل تحریر فرمایا ۔

"الجواب ”

آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یا بی حضور سید عالم کا کوئی ثبوت ہے ، بلکہ مرض اقدس جس میں وفات پائی ، اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ، اور ایک حدیث مرفوع میں آیا ہے آخری اربعاء من الشھر یوم نحس مستمر(2) اور مروی ہوا کہ ابتدائے ابتلائے سید نا ایوب علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والتسلیم اسی دن تھی اور اسے نحس سمجھ کر مٹی کے برتن توڑ دینا گناہ واضاعت مال ہے ، بہر حال یہ سب باتیں بے اصولوبے معنی ہیں ، وا للہ تعالی اعلم [ احکام شریعت مسئلہ 93 حصہ دوم صفحہ 110/111 ]

اسی طرح اس فرقے کے ایک اور مولوی لکھتے ہیں : ماہ صفر کا آخری چہار شنبہ ہندوستان میں بہت منایا جاتا ہے ، لوگ اپنے کاروبار بند کردیتے ہیں ، سیر وتفریح اور شکار کو جاتے ہیں ، پوریاں پکتی ہیں ، اور نہاتے دھوتے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس روز غسل صحت فرمایا تھا ، اور بیرون مدینہ سیر کیلئے تشریف لے گئے تھے ۔ یہ سب باتیں بے اصل ہیں بلکہ ان دنوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرض شدت کا ساتھ تھا ، لوگوں کی جو باتیں بنائی ہوئی ہیں ، سب خلاف واقعہ ہیں ۔ [” بہار شریعت ” سولہوں حصہ صفحہ 358 ]

الغر ض مذکورہ صراحت اور اعتراف کے بعد اس دن کو جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے شدید بیمار ہوئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم جانبر نہ ہو سکے ۔ جشن کےطور پر منانا اور خوشی میں جلوس نکالنا اور سیر وتفریح کے لئے نکلنا بڑا عجیب ہے جولوگ نا واقفیت میں ایسا کر رہے ہیں ، ان کا عذرتوپھر بھی شاید مسموح ہو ، لیکن تاریخی حقائقجاننے کے باوجود کوئی شخص صفر کے آخری بدھ کو جاہلانہ اور مبتدعانہ خیالات کے مطابق بطور جشن مناتا ہے تو اس کی سنگدلی قابل صد ماتم ہے ،

ان کنت لا تدری فتلک مصیبۃ

وان کنت تدری فالمصیبۃ اعظم.

29 جولائی 1992ء – الاعتصام لاہور

=+=+=+=+=+=+=+=+=+=+=+=

(1) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض کی ابتدا کس دن کس تاریخ اور کس مہینہ کو ہوئی ہے اس سلسلے میں روایات میں سخت اختلاف ہے امام خطابی پیر کا دن بتلاتے ہیں ،امام ابو احمد الحاکم چہار شنبہ کو اور بعض ائمہ نے ہفتہ کا دن بتلا یا ہے بعض لوگ مرض کی ابتدا ماہ صفر کی دوسری دہائی اور بعض لوگوں نے ماہ صفر کی آخری تاریخیں بتلائی ہیں لہذا اس سلسلے میں کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی . "دیکھئے فتح الباری :9 / 162 نشر دار السلام ۔ فیضی”

(2) یہ حدیث کسی بھی معتبر کتاب میں مروی نہیں ہے بلکہ علماء نے اسے موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے دیکھئے سلسلہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ للالبانی :4/83 مولانا کا اسے اس طرح نقل کر دینا باعث تعجب ہے ۔ فیضی