بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :222 خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ بتاریخ :26/27/ شعبان 1433 ھ، م 17/16،جولائی 2012م چاند کے ذرائع عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قال:قال رَسُول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: لاَ تَصُومُوا حَتَّى تَرَوُا الْهِلالَ وَلا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدُرُوا لَهُ. ( صحيح البخاري :1906، الصوم – صحيح مسلم :1080، الصوم ) ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا : تم لوگ روزہ رکھنے کی ابتدا نہ کرو حتی کہ چاند دیکھ لو اور روزہ افطار نہ کرو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو ، پھر اگر [29 کی شام یعنی تیسویں شب کو ] تمہارے اوپر بادل چھا جائے تو اس کا اندازہ کرو [ یعنی تیس کی گنتی پوری کرو ] ۔ [ صحیح بخاری و صحیح مسلم ]۔ تشریح : رمضان المبارک کا روزہ اسلام کا ایک اہم رکن اور دین کی ایک عظیم بنیاد ہے ، اللہ تبارک وتعالی نے ہرعاقل و بالغ اور قادر مسلمان مرد و عورت پر رمضان کا روزہ فرض قرار دیا ہے جس کا انکار کفر اور اس میں لاپرواہی اسلام سے خارج ہونے کا سبب ہے ” [فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ] {البقرة:185} ” لہذا تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پالے اس کا روزہ ضرور رکھے ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار رمضان کی آمد پر صحابہ کو خوشخبری دیتے ہوئے فرمایا : رمضان کا مبارک مہینہ تمہارے اوپر سایہ فگن ہے ، یہ وہ مہینہ ہے جس کا روزہ اللہ تعالی نے تمہارے اوپر فرض قرار دیا ہے ۔ {سنن النسائی :4/129 – مسند احمد :2/385 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔ رمضان المبارک قمری اور شرعی سال کا نواں مہینہ ہے جس کی آمد اور اس کے دخول کا علم درج ذیل طریقے سے ہوسکتا ہے ۔ [۱] چاند کی رویت : اسلام نے کسی بھی ماہ کے دخول کے لئے چاند کو علامت قرار دیا ہے یعنی افق مغرب پر سورج ڈوبنے کے وقت اگر ہلال نو دکھائی دے تو اس کا معنی ہے کہ پچھلا مہینہ رخصت ہوا اور نیا مہینہشروع ہوگیا لہذا اگر شعبان کی انتیس تاریخ کو غروب آفتاب کے وقت افق مغرب پر چاند نظر آجاتا ہے تو اس کا معنی ہے کہ اگلا دن رمضان کے روزے کی ابتدا کا دن ہے ارشاد نبوی ہے : "اذا رائیتم الہلال فصومو ” { متفق علیہ } ۔ جب چاند دیکھو تو روزہ رکھو ۔ حدیث میں وارد چاند دیکھنے سے مراد یہ ہے کہ انسان خود چاند دیکھ لے یا کوئی ایسا شخص چاند دیکھنے کی خبر دے جس کی خبر پر اعتماد کیا جاسکے یعنی وہ شخص مسلمان ہو ، عاقل و بالغ ہو اور امانت و دیانت اور نظر کے لحاظ سے ایسا ہو کہ اس پر اعتماد کیا جاسکے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بادیہ نشین خدمت نبوی میں حاضر ہوتا ہے اور خبر دیتا ہے کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تو لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہے ؟ اس نے جواب دیا : جی ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سوال کیا : کیا تو محمد رسول اللہ کی بھی گواہی دیتا ہے [ یعنی کیا تو مسلمان ہے ] ؟ اس نے جواب دیا : جی ہا ،اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اے بلال ! لوگوں میں اعلان کرو کہ کل رمضان کا روزہ رکھیں ۔ { سنن اربعہ } ۔ لہذا اگر کسی نے خود چاند دیکھ لیا ، یا کسی معتبر شخص نے چاند کی اطلاع دے دی یا اسلامی حکومت نے چاند کے ثبوت کا اعلان کردیا یا کسی غیر اسلامی حکومت میں مسلمانوں کی کمیٹی نے چاند کا اعلان کردیا تو وہاں موجود ہر مسلمان پر روزہ رکھنا واجب ہوگا ، اس کی مخالفت جائز نہ ہوگی کیونکہ مذکورہ سارے امور شرعی حجت ہیں ، تفصیل کے لئے دیکھئے گذشتہ سے پیوستہ حدیث نمبر 220 ۔ واضح رہے کہ رویت ہلال کا ثبوت ہوجانے کے بعد منازل قمر اور علم فلک کا کوئی اعتبار نہ ہوگا کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دخول ماہ کو رؤیت ہلال پر معلق کیا ہے نہ کہ منازل قمر پر ۔ [۲] تیس دن مکمل : شہررمضان کے دخول کا دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ اگر شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند نہ دکھائی دیا تو تیس کی گنتی پوری کی جائے گی ، چنانچہ جب شعبان کے تیس دن پورے ہوگئے تو آنے والا دن رمضان کی پہلی تاریخ شمار ہوگی ، کیونکہ قمری مہینہ 30 دن سے زیادہ نہیں ہوتا اور نہ ہی انتیس دن سے کم ہوتا ہے یہ تو ہوسکتا ہے کہ دو یا تین مہینے لگاتار 30 دن یا 29 دن کے ہوں لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی مہینہ 29 دن سے کم یا 30 دن سے زیادہ ہو ، ارشاد نبوی ہے : ہم لوگ امی امت ہیں نہ لکھتے ہیں اور نہ حساب رکھتے ہیں ، مہینہ اتنا ہوتا ہے اور اتنا ہوتا ہے اور اتنا ہوتا ہے ، یہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو کھول کر اشارہ فرمایا اور تیسری بار اپنے ایک ہاتھ کے انگوٹھے کو موڑ لیا [ گویا کہ 29 دن بتائے ] پھر فرمایا : مہینہ اتنا ہوتا ہے ، اتنا ہوتا ہے ، اور اتنا ہوتا ہے یعنی پورے تیس دن ۔ { صحیح بخاری وصحیح مسلم } ۔ زیر بحث حدیث میں اسی امر کا بیان ہے بلکہ تا کیدی بیان ہے کہ مسلمانوں کو روزہ و عید چاند دیکھ کر یا مہینہ کے 30 دن پورا ہونے پر منائی جائے گی ۔ فوائد : 1. مسلمانوں کے معاملات خصوصا عبادات وغیرہ میں از روئے شرع شرعی مہینوں کا اعتبار ہے ۔ 2. شرعی طور پر ابتدائے ماہ اور انتہائے ماہ کی معلومات کا واحد ذریعہ رویت ہلال ہے یا پھر تیس دن پورے ہونا ۔ 3. قمری ماہ کے ثبوت کے لئے حساب یا علم فلک پر اعتماد جائز نہ ہوگا اور نہ ہی اس پر روزہ و عید وغیرہ کی بنیاد رکھی جائے گی ۔ 4. شرعی مہینہ 29 دن یا 30 دن کے ہوتے ہیں ، لہذا چاند دیکھنے سے قبل روزہ رکھنا جائز نہ ہوگا ۔ 5. یوم الشک کا روزہ جائز نہ ہوگا ، کیونکہ اس چاند کا ثبوت مشکوک ہے ، جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ۔ { سنن النسائی بروایت عمار بن یاسر } ختم شدہ |