بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماہِ شعبان اورمسلمان
از قلم : شیخ محمد طیب سلفی ، داعیہ جالیات المجمعہ
ناشر : www.islamidawah.com
یہ شعبان کا مہینہ ہےاس مہینہ میں ایک مسلمان کو کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے، نیز اس مہینہ کے حوالہ سے ایک مسلمان کے لئے کتاب وسنت میں کیا ہدایات آئی ہوئی ہیں،درج ذیل سطور میں ان ہدایات کو آپ کے سامنے رکھا جارہا ہے ، اللہ تعالی سےدعا ہے کہ وہ مجھے اور آپ سب کو حق سمجھنےاور اس کے مطابق عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
محترم ناظرین! کتب حدیث کی ورق گردانی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت نفلی روزے رکھتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں( ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر قط إلا رمضان وما رأيته في شهر أكثر صياماً منه في شعبان)”میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینہ کا (نفلی) روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا”
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ میں کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے۔
آپ کیوں اسی مہینہ میں کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے کسی اور دوسرے مہینہ میں کیوں نہیں؟ تو اس کا جواب ملاحظہ کیجئے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ سے پوچھا کہ آپ جتنے روزے شعبان میں رکھتے ہیں کسی اورمہینہ میں اتنے روزے نہیں رکھتے؟ توآپﷺ نے جواب میں فرمایا:(ذلك شهر يغفل الناس عنه ، بين رجب ورمضان ، وهو شهر ترفع فيه الأعمال إلى رب العالمين ، فأحب أن يرفع عملي ، وأنا صائم” ( یہ ایسا مہینہ ہے جس کی فضیلت سے لوگ غافل ہیں ,جو رجب اوررمضان کے درمیان ہے، یہ ایسا مہینہ ہے جس میں اعمال رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، میں یہ پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال روزے کی حالت میں اٹھائے جائیں ” (مسند احمد، سنن نسائی ، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے دیکھئے (صحیح الترغیب والترہیب ج1 247)
ایک اورصحیح حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہفتہ میں دو مرتبہ لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ایک پیر کے دن اور دوسرے جمعرات کے دن ( تعرض الاعمال یوم الاثنین والخمیس)
ایک اور صحیح حدیث میں ہے روزانہ صبح وشام ہمارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئےجاتے ہیں، جس پرحدیث (يَتَعَاقَبُونَ فِيكُمْ مَلاَئِكَةٌ بِاللَّيْلِ، وَمَلاَئِكَةٌ بِالنَّهَارِ، وَيجْتَمِعُونَ في صَلاَةِ الصُّبْحِ وَصَلاَةِ العَصْرِ، ثُمَّ يَعْرُجُ الَّذِينَ بَاتُوا فِيكُمْ، فَيَسْأَلُهُمُ اللهُ- وَهُوَ أعْلَمُ بِهِمْ- كَيْفَ تَرَكْتُمْ عِبَادي؟ فَيقُولُونَ: تَرَكْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَأتَيْنَاهُمْ وَهُمْ يُصَلُّون) دلیل ہے۔ ” تم میں رات اور دن کے فرشتے آتے جاتے ہیں اور فجر اور عصر کی نماز میں جمع ہوتے ہیں پھر وہ فرشتے جو تمہارے درمیان رات گزارے ہوتے ہیں وہ آسمان کی طرف چڑھتے ہیں تو اللہ عزوجل ان سے سوال کرتے ہیں حالانکہ وہ ان کے حال سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس طرح چھوڑا ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ہم نے ان کو نماز پڑھتے ہوئے چھوڑا ہے اور جب ہم ان کے پاس آئے تو نمازپڑھ رہے تھے”( صحیح بخاری کتاب مواقیت الصلاۃ)
اس حدیث سے معلوم ہواکہ رات اور دن کے فرشتے صبح وشام ہمارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں۔
اور سال میں ایک بار یعنی سالانہ ایک مرتبہ شعبان کے مہینہ میں ہمارے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں۔
پتہ یہ چلا کہ یہ پورا مہینہ ہی فضیلت والاہے کیوں کہ اس میں لوگوں کے اعمال اللہ کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں ، اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اس مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نفلی روزے بکثرت رکھتے تھے۔
اس لئے ایک مسلمان کو چاہئے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء اور پیروی میں اوراللہ عزوجل سےاجروثواب کی امید میں کثرت کے ساتھ نفلی روزہ رکھے۔ کیوںکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے،﴿لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الآَخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا﴾ [الأحزاب: 21]” یقینا تمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالی کی اورقیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالی کی یاد کرتا ہے”
اس آیت کریمہ سے واضح ہوگیاکہ اسوہ رسول کو وہی اپنائے گاجو آخرت میں اللہ کی ملاقات پر یقین رکھتا اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرتا ہے، آج مسلمان بالعموم ان دونوں خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے اسوہ رسول کی بھی کوئی اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے،ان میں جو اہل مذہب ہیں ان کے پیشوا، امام، پیراور مشائخ ہیں اور جو اہل دنیا اور اہل سیاست ہیں ان کے مرشد ورہنما آقایان مغرب ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت ومحبت کے زبانی دعوے تو بڑے ہیں لیکن آپ کو مرشد اور پیشوا ماننے کے لئے ان میں سے کوئی بھی آمادہ نہیں ہے۔
ہونا تو یہ چاہئےآپ کی اتباع میں ایک دن روزہ رکھےاورایک دن افطار کرے، یا چند دن روزہ رکھے اورچند دن افطار کرے، یازیادہ دن اور مسلسل روزہ رکھےیہاں تک کہ جب رمضان میں ایک یا دودن باقی رہ جائے توروزہ رکھنا چھوڑدے ،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوائے رمضان کے کسی اور مہینے کامکمل اور پورا روزہ نہیں رکھتے تھے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خود بیان فرماتی ہیں(کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصوم حتی نقول لایفطر ویفطر حتی نقول لایصوم ) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پے درپے نفلی روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم خیال کرتے کہ آپ روزہ نہیں چھوڑیں گے، جب آپ چھوڑتے تو ہم سمجھتے کہ اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے”
یہاں پر ان باطل اعتقادات کی نشاندہی بھی مناسب ہے جو اس مہینہ میں لوگ کرتےہیں جیسے:
شعبان کی پندرہویں تاریخ کا روزہ رکھنا: اس بارے میں سنن ابن ماجہ کی درج ذیل دوحدیثیں پیش کی جاتی ہیں اور وہ دونوں حدیثیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی جاتی ہیں ایک یہ "إن في صوم النصف منه مزية على غيره” کہ” پندرہویں شعبان کے روزہ کو دوسرے دنوں کے روزے پر خصوصیت حاصل ہے ” لیکن یہ حدیث ضعیف ہےابن رجب رحمہ اللہ نے اللطائف المعارف میں یہ بات کہی ہے، اور صاحب المنار نے کہا ہے کہ صحیح بات تو یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ پر جھوٹ گھڑی گئی ہے۔
دوسری حدیث جوشعبان کی پندرہویں تاریخ کےروزہ رکھنے پر پیش کی جاتی ہے وہ یہ ہے: "إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها ،وصوموا نهارها” یہ روایت بھی موضوع ہے ،امام ابن ماجہ نے اس کو روایت کیا ہے اس روایت کی سند میں ابوبکر بن عبد اللہ بن محمد بن ابی سبرۃ قرشی عامری مدنی ہے ،محدثین نے کہا کہ یہ حدیثیں گڑھا کرتا تھا، دیکھئے التقریب، اورعلامہ ذھبی نے میزان میں کہا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر محدثین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے( تخريج الإحياء (1/164)، وتذكرة الموضوعات (1/312)، وضعيف ابن ماجة برقم (294)، والسلسلة الضعيفة برقم (2132)، ومشكاة المصابيح برقم (1308)، وضعيف الترغيب برقم (623)، وضعيف الجامع حديث رقم (652).
بنا بریں شعبان کے دوسرے دنوں کو چھوڑ کر صرف شعبان کی پندرہویں تاریخ کو روزہ کے لئے خاص کرنا مناسب نہیں۔
پندرہویں رات کی فضیلت: ( شب برات کی فضیلت) اس سلسلہ میں جتنی احادیث وارد ہوئی ہیں ان تمام احادیث کے متعلق ابن رجب رحمہ اللہ نے اللطائف میں کہا ہے اکثر محدثین نے ان کو ضعیف قرار دیا ہے، اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ساری احادیث ضعیف ہیں ان پراعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔
پندرہویں رات کا قیام ( شب براءت کی عبادت)
اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی کوئی صحیح اور قابل اعتماد حدیث منقول نہیں جس سے اس رات کو کوئی خاص عبادت کرنا ثابت ہو۔
اس رات کی عظمت وفضیلت اوراس رات میں خاص عبادت کرنے سے متعلق جومحنت وکوشش منقول ہے، اس کے متعلق ایک قول یہ ہے یہ سب کی سب اسرائیلیات ہیں، ایک قول ہے کہ یہ سب کی سب بدعت ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے (لم يثبت فيها عن النبي – صلى الله عليه وسلم – ولا عن أصحابه شيء،) کہ اس سلسلہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے کچھ ثابت نہیں ہے۔
صاحب المنار علامہ رشید رضا المصری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے مسلمانوں کو نہ اپنی کتاب میں اور نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حدیث میں اس رات کے متعلق کوئی خاص عمل بتلایا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس رات میں نماز پڑھنے کی فضیلت کے سلسلہ میں جو کچھ بھی منقول ہے وہ سب موضوع ومن گھڑت ہے۔
اس رات کے متعلق عوام میں یہ بات بھی مشہور ہے کہ شعبان کی پندرہویں رات کوسال بھر میں جو کچھ ہونا ہے اس کا فیصلہ ہوتا ہے، پورے سال کی تقدیر لکھی جاتی ہے یہ بالکل غلط بات ہے کیوں کہ جس رات میں سال بھر کا فیصلہ لکھا جاتا ہے وہ شب قدر ہے جس کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے ﴿فِيهَايُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍحَكِيمٍ﴾ [الدخان: 4] ” اس رات ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ کردیا جاتا ہے” یہ رات رمضان میں ہوتی ہے نہ کہ شعبان میں اورشب قدر کے بارے میں فرمان الہی ہے﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآَنُ﴾ [البقرة: 185] ” رمضان کے مہینے میں قرآن نازل کیا گیا”
اسی طرح پندرہویں شعبان کو لوگ انواع واقسام کا کھانا بناتے اور کھلاتے ہیں، پڑوسیوں فقیروں اورمسکینوں میں کھانا تقسیم کرتے ہیں اور اس کوعشاء والدین کا نام دیتے ہیں جب کہ نبی کریم سے اس کی کوئی اصل منقول نہیں ہے اور نہ امت میں کسی سے اسکی کوئی اصل ثابت ہے اور نہ ہی یہ دین کے کاموں میں سے ہے، اس لئے یہ بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت وگمراہی ہے۔
اس لئے میرے بھائیو! عام لوگوں سے سن کر ان کاموں کو نہ کیاجائے بلکہ ان علماء سے سن کر اور سمجھ کر کیا جائے جو حدیث وسنت کے عالم ہیں، وہ علماء جو سلف صالحین کی راہ پر گامزن ہیں، اور جو چیز لوگوں سے ہمارے درمیان مشہور اور پھیلی ہوئی ہے تو سن لیجئے ان میں سے اکثر کاتعلق بدعت سے ہے، اس لئے ہمیں ان امور میں ان اہل علم کی طرف رجوع کرنا چاہے جو سنت کے جاننے اور پہچاننے والے ہیں ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کو حق سمجھنے کی اوراس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور باطل کو باطل سمجھنے اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور حق کو ہم پر مشتبہ اور مبہم نہ رکھے کہ ہم گمراہ اور بھٹک جائیں۔
جب آپ نے حق کو جان لیا اورسمجھ لیا کہ ان چیزوں کی کوئی اصل شریعت میں نہیں ہے، تو آپ کو چاہئے اس پیغام کو لوگوں میں عام کریں تاکہ اس طرح کے باطل عقیدوں کا نام ونشان ختم ہوجائے ۔
ابوعدنان طیب السلفی مکتب الدعوۃ بالمجمعۃ