بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :247
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ :14 / رجب 1435 ھ، م 13،مئی 2014م
سوشیل میڈیا
عن أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : (إِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ رِضْوَانِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَرْفَعُهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَاتٍ ، وَإِنَّ الْعَبْدَ لَيَتَكَلَّمُ بِالْكَلِمَةِ مِنْ سَخَطِ اللَّهِ لَا يُلْقِي لَهَا بَالًا يَهْوِي بِهَا فِي جَهَنَّمَ .
( صحيح البخاري : 6478 الرقاق – مسند أحمد : 2/ 334 )
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا : بندہ اللہ کی رضامندی کی بات کرتا ہے اس کی طرف توجہ بھی نہیں ہوتی لیکن اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے کئی درجے بلند فرما دیتا ہے ، اور بندہ اللہ تعالی کی ناراضگی کی بات کرتا ہے جس طرف اس کا دھیان بھی نہیں ہوتا لیکن اس کی وجہ سے وہ جہنم میں جاگرتا ہے ۔ { صحیح بخاری ، مسند احمد }
تشریح : آج جب کہ وسائل اعلام [social media] اس قدر تیز اور ادنی سے ادنی آدمی کے اس قدر قریب ہوگئے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے بند کمرے میں بیٹھ کر زبان و قلم کے ذریعہ اپنی کسی بات کو صرف چند سکنڈ میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچا سکتا ہے ، ایسے وقت میں ایک مسلمان کے لئے یہ بہت بڑا امتحان ہے کہ وہ اپنی زبان و قلم کو کلمہ خیر کیلئے استعمال کررہا ہے جس سے وہ رحمت الہی کا مستحق ٹھہر رہا ہے یا کلمہ شر کو پھیلا رہا ہے جس سے وہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سامان پیدا کر رہا ہے، آج بدقسمتی سے بہت سارے لوگ اس بارےمیں حکم الہی کی پرواہ کئے بغیر اپنے زبان و قلم کو آزاد چھوڑے ہوئے ہیں اور اللہ تعالی کی ناراضگی اور غضب کی بہت سی باتوں کو ویب سائٹ ، فیس بک ، واٹسپ اور ٹویٹر جیسے سوشیل میڈیا کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچا رہے ہیں ۔
زیر بحث حدیث میں اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ بسا اوقات بندہ اپنی زبان سے کوئی کلمہ خیر ادا کرتا ہے جس سے کسی کا دل خوش ہوتا ہے ، کسی بندے کی اصلاح ہوجاتی ہے یا ظلم و معصیت سے رک جاتا ہے، تو اس کلمہ خیر کے عوض اللہ تعالی اس سے اس قدر راضی ہوتا ہے کہ پھر قیامت تک اس سے ناراض نہیں ہوتا کیونکہ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالی اس کلمہ کی برکت سے اس کی زندگی کو صراط مستقیم پر گامزن کردے ، برخلاف اس کے بعض دفعہ انسان اپنی زبان سے ایک ایسا کلمہ شر ادا کرتا ہے کہ اس سے اللہ کے کسی ولی کی دل آزاری ہوتی ہے ، یا ا للہ تعالی کے نزدیک وہ کلمہ کفر ہوتا ہے یا اس کلمہ کا کسی بندے پر ایسا برا اثر پڑتا ہے کہ وہ اللہ کی معصیت کی راہ اختیار کرلیتا ہے ، چنانچہ کسی کو قتل کردیتا ہے ، کسی کو سیدھے راستے سے بھٹکا دیتا ہے، تو اس ایک کلمے کے عوض اللہ تعالی اس کے اوپر قیامت تک کے لئے اپنی ناراضگی مسلط کردیتا ہے ،اکہیں خطرناک امور میں سے چند کی ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے۔
[۱] اللہ کے دین اور رسول ﷺ سے متعلق بغیر علم کے گفتگو : آج ادنی سے ادنی شخص جسے دین کا ، قرآن و حدیث کا کوئی علم نہیں ہے ، یا کچھ علم تو ہے لیکن ایسا علم نہیں ہے کہ دین کے مسائل کے بارے میں گفتگو کرے لیکن پھر بھی بے دھڑک بول رہا ہے ، خواہ اللہ تعالی کی ذات و صفات سے متعلق ہوں ، یا احکام وفرامین سے متعلق ہوں۔ یہ فی الواقع اللہ کے بارے میں بغیر علم گفتگو اور اللہ پر جھوٹ باندھنے کے ہم معنی ہے : وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (60)۔اور جن لوگوں نے اللہ تعالی پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوگئے ہوں گے کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ” ۔
یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ قرآن مجید میں اسے شرک باللہ ، ناحق ظلم و زیادتی ، علانیہ فحش کاری کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔ { الاعراف : 33 }
[۲] بغیر علم کے فتوی : ما سبق صورت سے ملتی جلتی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آج ہر شخص حلال و حرام اورسنت و بدعت کے بارے میں بے دھڑک فتوے دے رہا ہے اور بدقسمتی سے لوگ اہل علم سے فتوی پوچھنے کے بجائے انٹرنیٹ سے فتوے پوچھتے ہیں ، اس طرح وہ لوگ اپنے آپ کو اس زمرے میں شامل کررہے ہیں جن سے متعلق نبی ﷺ کا ارشا د ہے کہ جب اہل علم اٹھ جائیں گے تو لوگ جاہلوں سے فتوی پوچھیں گے جو بغیر علم کے فتوی دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
[۳] دین کا مذاق : آج وسائل اعلام [ سوشیل میڈیا ] میں یہ چیز بھی بہت عام ہے ، نماز کا مذاق ، دین کا مذاق ، دینداروں کا مذاق ، داڑھی کا مذاق ، عورت کے پردے کا مذاق، یہ سب کچھ بے روک وٹوک ہورہا ہے ، حالانکہ یہ ایسا جرم ہے کہ علماء کے نزدیک متفقہ طور پر کفر اور ایسا کرنے والا کافرہے ، ایسے ہی ایک واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے : ” اگر آپ ان سے پوچھیں گے تو وہ صاف کہہ دیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں ہنس بول رہے تھے ، کہہ دیجئے کہ اللہ ، اس کی آیتیں [ احکام ] اور اس کا رسول ہی تمہارے ہنسی مذاق کے لئے رہ گئے ہیں ، تم بہانے نہ بناو یقینا تم اپنے ایمان کے بعد کافر ہوگئے ہو ۔ ” { التوبہ : 65- 66 } ۔ تفسیر کی کتابیں دیکھنے سے پتہ چلتا ہے ان لوگوں نے صرف قرآن کے حفاظ کا مذاق اڑایا تھا۔
[۴] فحش باتوں کی اشاعت : آج نیٹ اور فیس بک اس کا وسیع میدان ہے ، قسم قسم کے گندے قصے اور فحش تصویریں لوگوں میں عام کرکے جوان لڑکے اور لڑکیوں کے اخلاق و دین کو بگاڑا جارہا ، ارشاد باری تعالی ہے : ” جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہیں ، اللہ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ” ۔ { النور : 19 } ۔
[۵] بحث و مباحثہ : خصوصا واٹساپ اور ٹویٹر پر کم علم ، آدھے علم بلکہ لا علم لوگوں کی بحثیں ایسے بڑے بڑے مسائل پر جاری رہتی ہیں جن کے بارے میں ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ، صحابہ کی ایک جماعت کو اکٹھا کرلتیے تھے ، حتی کہ بسا اوقات کفر و تکفیر سے متعلق بھی ان کی بحثیں چلتی ہیں ، ایسے ہی لوگوں سے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے : مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ (58) الزخرف۔۔۔
آپ سے ان کا یہ کہنا محض جھگڑے کی غرض سے ہے [ اصلاح مقصد نہیں ہے ] بلکہ یہ لوگ ہیں ہی جھگڑا لو ۔ اس آیت کی تفسیر میں ارشاد نبوی ہے : جب بھی کوئی قوم ہدایت پر تھی اور وہ گمراہ ہوئی تو اسے بحث و مباحثے میں الجھا دیا گیا ۔ { صحیح بخاری } ۔