الہی نعمت/حديث نمبر :216

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :216

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :14/15/ رجب 1433 ھ، م 05/04،جون 2012م

الہی نعمت

عن معاوية رضي الله عنه قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يَقُولُ « مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِى الدِّينِ ».

( صحيح البخاري :71، العلم – صحيح مسلم : 1037 ، الزكاة )

ترجمہ : حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔

تشریح : ہم میں سے ہر شخص کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی مخلوق ہے جسے عبادت کے لئے پیدا کیا گیا ہے ، عبادت الہی ہی اس کی زندگی کا مقصد اولیں ہے لہذا ضروری ہے وہ اپنے خالق اور اس کی عبادت کے طریقے کو سیکھے اور یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ ہم عبادت کو صحیح اور درست ڈھنگ سے کیسے ادا کرسکتے ہیں ، اب اگر کوئی شخص اپنے مقصد حیات میں کوتاہی اور لاپرواہی سے کام لیتا ہے تو حقیقۃ اسے دنیا میں رہنے کا حق نہیں ہے ، زیر بحث حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری توجہ اسی طرف دلائی ہے کہ جو شخص دین کی سمجھ حاصل کرتا ہے وہ بڑا ہی خوش نصیب ، اللہ تعالی کا محبوب اور اس کے نزدیک خیر یت کے مقام پر فائز ہے ، البتہ جو شخص دین کی سمجھ حاصل نہیں کرتااور عبادت کا طریقہ نہیں سیکھتا اس کے برخلاف اپنی ساری عمر دنیا حاصل کرنے میں صرف کردیتا ہے تو وہ بڑا ہی بدنصیب اور ہر قسم کی بھلائیوں سے محروم ہے ، زیر بحث حدیث کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے درج ذیل امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔

[۱] دین کیا ہے ؟ : اللہ تعالی نے بندوں کو جو دین دیا اور بطور انعام عطا کیا ہے وہ اسلام ہے ، اور حدیث جبریل سے پتا چلتا ہے کہ دین اسلام کے تین درجے ہیں ، اسلام ، ایمان اور احسان ہے ، اسلام سے مراد تمام جسمانی و مالی عبادات جیسے شہادتین کا اقرار ، پنج وقتہ نمازوں کی پابندی ، رمضان کے روزہ اور زکاۃ کی ادائیگی اور بشرط استطاعت بیت اللہ شریف کا حج ہیں ، اور ایمان سے مراد عقائد یعنی اللہ تعالی پر ایمان ، اللہ کے فرشتوں پر ایمان ، اللہ کی کتابوں پر ایمان ، اللہ کے رسولوں پر ایمان ، آخرت کےد ن پر ایمان اور اچھی بری تقدیر پر ایمان ہے۔ اور احسان سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے تمام ظاہری و باطنی معاملات میں صرف اللہ وحدہ لاشریک کو اپنے سامنے رکھے اور یقین مانے کی اللہ تعالی اس کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہے ، اسی کو حدیث میں ان الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گویا تو اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اور اگر تو اللہ کو نہیں دیکھ رہا ہے تو اللہ تعالی تجھے ضرور دیکھ رہا ہے ۔ اس حدیث میں وہ دین بتا دیا گیا ہے جس پر ایک مومن کے عقیدہ و عمل اور اس کے حرکات و سکنات کی بنیاد ہونی چاہئے ۔

[۲] دین کی سمجھ کیا ہے : اس حدیث مبارک میں وارد لفظ فقہ اور دین کی سمجھ سے مراد قرآن و حدیث اور صحابہ و سلف امت کے طریقے پر دین کی سمجھ ہے یعنی انسان دین کے قواعد اور بنیادی عقائد کا علم سیکھے ، اپنے عقیدہ اور ایمان کو قرآن و حدیث اورصحابہ کے ایمان و عقیدہ کے مطابق بنائے : [فَإِنْ آَمَنُوا بِمِثْلِ مَا آَمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا]{البقرة:137} “اگر لوگ ویسے ہی ایمان لائیں جیسے تم لوگ ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت یافتہ ہیں ” [ ورنہ نہیں ]۔ اسی طرح اپنے اعمال ظاہرہ جیسے نماز ، روزہ اور حج و زکاۃ وغیرہ کو صرف اور صرف قرآن وحدیث کے مطابق انجام دے ، ا س کے برخلاف کوئی بھی شخص ہو اس کی رائے وقیاس کو قرآن و حدیث کے سامنے کوئی اہمیت نہ دے ، ساتھ ہی ساتھ اپنے علم کے مطابق عمل پیرا بھی رہے کیونکہ جو شخص اپنے علم کے مطابق عمل نہیں کرتا اسے فقیہ و عالم نہیں کہا جاتا بلکہ اسے قاری و مطالعہ کرنے والا کہنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ عالم وفقیہ وہی شخص ہے جو قرآن و سنت کا علم رکھتا ہو اور اپنے علم کے مطابق عمل کرتا ہو ، چنانچہ سلف امت فقیہ و عالم اسی شخص کو کہتے تھے جو اپنے علم کے مطابق عمل پیرا ہو ، حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے ایک مسئلے کے بارے میں پوچھا کہ کیا فقہاء کی رائے یہی ہے تو حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے کہ فقیہ کون ہے ؟ فقیہ تو وہ شخص ہے جو دنیا سے بیزار ہو ، آخرت کی طرف رغبت رکھتا ہو ، اپنے دین کے بارے میں ۔۔۔۔ بصیرت رکھتا ہو او ر اپنے رب کی عبادت میں جٹا ہو

{ صحیح الترغیب :1/136}

[۳]علم سیکھنے سے آتاہے :اس میں کوئی شک نہیں کہ علم دین عطائے الہی ہے ، دین کی سمجھ اسے ملتی ہے جسے اللہ تعالی دیتا ہے ، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ اس کے لئے تگ و دو بھی کرے ، صحیح علم کہاں سے حاصل ہوسکتا ہے وہاں پہنچنے کی کوشش بھی کرے اور صرف تمناوں اور امیدوں کا سہارا نہ لے ، اسی بات پر متنبہ کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو ! علم [اس کے اصل مصدر سے ] سیکھنے سے ملتا ہے ، دین کی سمجھ ، سمجھنے میں کوشش سے حاصل ہوتی ہے اور جس کے ساتھ اللہ تعالی خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالی سے سب سے زیادہ ڈرنے والے اس کے عالم بندے ہوتے ہیں ۔

{ الطبرانی الکبیر } ۔

ایک اور حدیث میں فرمایا : علم سیکھنے سے ملتا ہے ، حلم و بردباری حلم کا جذبہ پیدا کرنے سے آتی ہے اور جو شخص خیر کا طالب رہے گا اسے خیر ملے گا اور جو شر سے بچنے کی کوشش کرے گا اسے شر سے بچا لیا جائے گا ۔

{ الصحیحہ :342 } ۔

یہ تین امور ہیں جن کے حصول سے انسان خیر و بھلائی اور اللہ تعالی کی محبوبیت سے ہمکنار ہوسکتا ہے جس کا واضح مفہوم ہے کہ جس شخص کو یہ چیزیں حاصل نہیں ہے وہ اس لائق ہے کہ اسے محروم اور بدنصیب کہا جائے ۔

فوائد :

۱- اہل علم کی فضیلت کہ وہ اللہ تعالی کے نزدیک خیریت کے حامل ہیں ۔

۲- دین کی سمجھ سے مراد قرآن و حدیث کا فہم دین کے احکام و مسائل اور حلال و حرام کی تمیز ہے ۔

۳- بڑا بدنصیب ہے وہ شخص جو دین کی سمجھ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔

4- اور اس سے بڑا بدنصیب وہ شخص ہے جو دین سیکھتا ہے اور اس پر عمل نہیں کرتا ۔

ختم شدہ