بسم اللہ الرحمن الرحیم
336:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
انبیاء کا خوف
بتاریخ : 22/ ربیع الآخر 1439 ھ، م 09/، جنوری 2018 م
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: “لَوْ أَنَّ اللَّهَ يُؤَاخِذُنِي وَعِيسَى بِذُنُوبِنَا لَعَذَّبَنَا وَلَا يَظْلِمُنَا شيئا قال وأشار بالسبابة والتي تليها” صحيح ابن حبان:658و حلية الأولياء8/132، السلسلة الصحيحة:3200
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو گناہ انگوٹھے اور اس کے بعد والی انگلی کے ذریعہ ہوتا ہے اور اللہ تعالی میری اور عیسی بن مریم علیہ السلام کی ان گناہوں پر پکڑ کرے تو ہمیں عذاب دے سکتا ہے اور اس بارے میں وہ ہم پر کچھ بھی ظلم کرنے والا نہ ہوگا ۔ {صحیح ابن حبان ، حلیۃ الاولیاء} ۔
تشریح : آج ہمارا معاشرہ گناہوں کے دلدل میں جس بری طرح پھنسا ہوا ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا ، ہر میدان میں اللہ و رسول کی نافرمانیاں بالکل عام ہیں، بلکہ شرعی اقدار کا پاس ولحاظ پسماندگی اور غیر مہذب ہونے کی علامت سمجھا جاتا ہے ، حتی کہ صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گناہ کرنے والے کے دلوں سے گناہوں کی قباحت اور خطرناکی کا احساس تک جاتا رہا ہے ، جب کہ گناہوں کا ارتکاب رب کے غضب اور اس کی ناراضگی کا سبب ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُكْرًا (8) فَذَاقَتْ وَبَالَ أَمْرِهَا وَكَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهَا خُسْرًا (9) أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا، الطلاق۔اور کتنی ہی بستیاں ایسی ہیں جنہوں نے اپنے رب کے حکم اور اس کے رسولوں کے حکموں سے سرتابی کی تو ہم نے ان کا سخت محاسبہ کیا اور انہیں بری طرح سزا دی ، انہوں نے اپنے کئے کا مزا چکھ لیا اور انکا انجام کار گھاٹا ہی گھاٹا اور [ آخرت میں] ان کے لئے اللہ تعالی نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : گناہ کرنے سے بچتے رہنا کیونکہ گناہ اللہ تعالی کی ناراضگی کا سبب بنتا ہے ۔ مسند احمد۔غور کرنے کی بات ہے کہ آدم علیہ السلام کو جنت سے جو نعمتوں اور آرام و آسائش کی جگہ ہے نکلنے کا کیا سبب تھا ، ابلیس ملعون جو ملائکہ کی مقدس جماعت کےساتھ اللہ تعالی کے خاص درباریوں میں تھے اسےراندہ درگاہ کیوں ہونا پڑا ، قوم نوح کو پانی کے عذاب میں کیوں ڈبو دیا گیا قوم لوط کی بستی کو حضرت جبریل نے سمائے دنیا تک لے جاکر کیوں الٹ دیا وغیرہ وغیرہ ۔
ظاہر بات ہے کہ ان تمام سوالوں کاایک ہی جواب ہے ، گناہ، یعنی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کے سبب ، اسی لئے اللہ کے نیک بندے جو اللہ تعالی کے مقام کو پہنچانتے ہیں وہ ہمیشہ اللہ تعالی کی نافرمانیوں سے ڈرتے اور خوف کھاتے رہتے ہیں اور لوگوں کوبھی اس سے متنبہ کرتے رہے ہیں ، جس کا اندازہ اوپر مذکور حدیث سے لگایا جاسکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خود اپنی اور اللہ کے کلمہ حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال دے کر فرمایا کہ اگر مجھے اور مسیح ابن مریم علیہما السلام کو بھی اللہ تعالی ان کی بعض کوتاہیوں اور لغزشوں پر گرفت کرنا چاہے تو گرفت کرسکتا ہے اور یہ اس کا حق بنتا ہے ، کیونکہ اس کی ذات کوئی معمولی ذات نہیں ، اس کے شان کی کوئی عام حیثیت نہیں ہے اور اس کی عظمت و جلال کسی ناپ اور پیمانے میں آجانے والی عظمت نہیں ۔
علماء کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مقصد اللہ کی شان اور اس کی عظمت و جلال کی وضاحت ، اس کی کبریائی و غنا کا بیان اور اس کی معصیت و نافرمانی کی قباحت کابیان کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ کوئی بھی شخص ہو، وہ عبادت میں خواہ کس قدر کوشاں ہو، اسے اللہ کی رحمت سے بے نیاز ہوکر اپنی اطاعت و کوشش پر بھروسہ نہیں کرلینا چاہئے ۔ ساتھیو ! اللہ کی طرف سے واجب کردہ امور کے ترک اور حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب کو معصیت اور گناہ کہتے ہیں، یہ گناہ صغیرہ بھی ہوتے ہیں اور کبیرہ بھی ، یہ دونوں ہی اللہ تعالی کی ناراضگی اور عذاب کا سبب بنتے ہیں ، بلکہ اس دنیا میں مختلف قسم کی مصیبتوں اور پریشانیوں کا اولین سبب گناہ ہوتے ہیں ۔ ان گناہوں کا اثر انسان کی خود اپنی ذات پر بھی پڑتا ہے اور اس کے ماحول پر بھی پڑتا ہے ، گناہوں کا جو اثر خود انسان کی ذات پر پڑتا ہے ان میں چند یہ ہیں ۔
[۱] گناہ کی وجہ سے بندہ علم شرعی سے محروم رہتا ہے : اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺکو لیلۃ القدر کی تعیین بتلا دی تھی ، آپ ﷺ کو بڑی خوشی ہوئی اور آپ خوشی خوشی باہر نکلتے کہ لوگوں کو اس کی اطلاع دیں لیکن راستے میں دو شخص جھگڑتے ہوئے آپ ﷺ کے سامنے آگئے اور ہر شخص یہ دعوی کررہا تھا کہ میری بات حق ہے، شیطان ملعون اہاں لڑانے میں اپنا کردار اداکررہا تھا ، چونکہ نبی ﷺ کی موجودگی میں یہ چیز نہایت ہی قبیح تھی ، لہذا اللہ تعالی نے نبی ﷺ کے ذہن سے لیلۃ القدر کی تعیین کو بھلا دیا ۔ {صحیح بخاری :49، 2023 ، صحیح مسلم } ۔ واضح رہے کہ علم سے وہ علم مراد ہوتا ہے جو بندے کو عمل پر ابھارے اور اللہ کے قریب کرے ۔
[۲] رزق حلال سے محرومی : ارشاد باری تعالی ہے : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (96)الاعراف۔ اور بستی والےاگر ایمان لے آتے اور اللہ کا تقوی اختیار کرتے تو ضرور ہم ان کے لئے آسمان وزمین کی برکتیں کھول دیتے،لیکن انھوں نے جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے کرتوت کے عوض پکڑ لیا۔ارشاد نبوی ہے کہ جب کوئی قوم ناپ و تول میں کمی کرنا شروع کردیتی ہے تو اللہ تعالی انہیں خشک سالی ، رزق میں تنگی اور بادشاہوں کے ظلم کے عذاب میں مبتلا کردیتا ہے ۔ {سنن ابن ماجہ ، مستدرک الحاکم بروایت ابن عمر } ۔
[۳] بندے کے گناہ کا اثر اس سے متعلقہ چیزوں پر بھی پڑتا ہے : اللہ تعالی کا ارشاد ہے :ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (41)الرومخشکی اور سمندر میں فساد بڑھ گیا ، اس کی وجہ سےجو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا، تاکہ وہ انھیں اس کا مزہ چکھائے جو انھوں نے کیا ہے،تاکہ وہ باز آجائیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا :ممکن ہے کہ اپنی سوراخ میں رہنے والا کیڑا انسانوں کے گناہوں کے سبب ہلاک ہوجائے ۔
[۴] اپنے رب سے وحشت : گناہ کا سب سے بڑا اثر یہ پڑتا ہے کہ گناہ کرنے والا بندہ اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق تو ڑ لیتا ہے ، اللہ کی عبادت ، اس کی محبوب جگہوں اور چیزوں سے اسے وحشت محسوس ہوتی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : نَسُوا اللَّهَ فَنَسِيَهُمْ۔ وہ اللہ کو بھولے تو اللہ نے انہیں بھلا دیا۔
فوائد :
- اللہ تعالی کی عظمت و جلال کہ انبیاء بھی اللہ سے خوف کھاتے ہیں ۔
- گناہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو وہ اللہ تعالی کی گرفت کا سبب بنتا ہے ۔
- اللہ تعالی غفور رحیم ہے کہ اپنے بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔