بسم اللہ الرحمن الرحیم
291:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
ایصال ثواب کے طریقے
بتاریخ : 27/ جمادی الاخر 1437 ھ، م 05، اپریل2016 م
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبِي مَاتَ وَتَرَكَ مَالًا، وَلَمْ يُوصِ، فَهَلْ يُكَفِّرُ عَنْهُ أَنْ أَتَصَدَّقَ عَنْهُ؟ فَقَالَ: ” نَعَمْ “. صحيح مسلم:1620 الوصية، سنن النسائي:3682 الوصايا، سنن ابن ماجة:2716 الوصايا.
ترجمہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے عرض کیا : میرے والد کا انتقال ہوگیا ہے ، انہوں نے مال چھوڑا ہے لیکن کوئی وصیت نہیں کی ہے ، اگر میں ان کی طرف سے صدقہ کروں تو یہ ان کی طرف سے کفارہ بنے گا ؟ نبی ﷺ نے جواب دیا : ہاں ۔
{صحیح مسلم ، سنن النسائی ، سنن ابن ماجہ } ۔
تشریح : ایک مومن بندے کو اس کی وفات کے بعد جن نیک اعمال کا ثواب ملتا رہتا ہے ان میں سے کچھ کا تعلق خود اس کے اپنے اعمال سے ہےاور کچھ کا تعلق اس کے متعلقین اور عام مسلمانوں سے ہے ، جن اعمال صالحہ کا تعلق اس کی اپنی ذات سے ہے ان کا ذکر ایک جامع حدیث میں وارد ہے چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایک مومن کو اس کی وفات کے بعد جن نیک اعمال کا ثواب ملتا رہتا ہے ان میں یہ بھی ہیں : ۱- علم جسے سکھایا اور پھیلایا ۔ ۲- نیک اولاد جو اپنے پیچھے چھوڑی ۔ ۳- مصحف یعنی قرآن مجید کا نسخہ جو چھوڑ کر گیا ۔ ۴- مسجد کی تعمیر کرائی ۔ ۵- مسافر خانہ تعمیر کروایا ۔ ۶ – نہر جاری کیا ۔ [اسی میں کنواں کھدوانا بھی داخل ہے ] ۔ ۷- صدقہ جو اس نے اپنی زندگی میں بحالت صحت نکالا اس کا اجر بھی اسے وفات کے بعد ملتا رہے گا ۔ {سنن ابن ماجہ :242 ، صحیح ابن خزیمہ : 2490 } ۔
جن اعمال کا تعلق اس کے غیر سے ہے، ان کی بھی کئی صورتیں ہیں ، جیسے :
[۱] مسلمانوں کا دعا کرنا ، نماز جنازہ بھی دعا ہی ہے ۔ [۲] میت کا قرض ادا کرنا ۔ [۳] میت کی طرف سے صدقہ کرنا ۔ [۴] میت کے فرض روزوں کی قضا کرنا ۔{یہ اس کی اولاد کے ساتھ خاص ہے } ۔ [۵] فوت شدہ حج ادا کرنا ۔
یہ وہ اہم اعمال ہیں جن کا اجر و ثواب میت کو پہنچتا رہتا ہے ، یہ اللہ تعالی کا اپنے مومن بندے پر بڑا کرم ہے کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی نیکیوں کا سلسلہ ختم نہیں کیا، بلکہ اپنے نبی کی زبانی ایسے اعمال بتلائے جن سے مومن اپنی وفات کی بعد بھی مستفید ہوتا رہتا ہے ۔
ایصال ثواب کے غیر شرعی طریقے :
واضح رہے کہ ایصال ثواب ایک شرعی مسئلہ اور عبادت کا کام ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس سلسلے میں جو کام بھی میت کے ایصال ثواب کے لئے کیا جائے اس کا ثبوت قرآن و حدیث میں پایا جائے اور جو طریقہ بھی اپنایا جائے وہ نبی ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہو ، ورنہ وہ کام باعث ثواب بننے کے بجائے بدعت شمار ہوگا جس کا انجام گمراہی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ، نبی ﷺ کا ارشاد ہے : جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے وہ مردود ہے ۔ {صحیح مسلم بروایت عائشہ }۔
لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ نبی ﷺ کی اس تاکید کے باوجود مسلمانوں نے ایصال ثواب سے متعلق بھی بہت سی غیرشرعی رسومات ایجاد کرلی ہیں اور انہیں ہی دین سمجھ بیٹھے ہیں، بلکہ اس کی مخالفت کو گمراہی اور بسا اوقات دین سے خارج ہونا تصور کرتے ہیں ، ان میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشارہ کیا جاتا ہے ۔
[۱] فاتحہ کی رسم : میت کے دفن سے فارغ ہونے کے بعد فاتحہ پڑھنا ، گھر پر تعزیت کی مجلس میں فاتحہ پڑھنا اور اسے میت کے لئے ایصال ثواب سمجھنا ایک ایسا عمل ہے جس کا ثبوت قرآن و حدیث اور عمل صحابہ و تابعین سے نہیں ہے ۔
[۲] قرآن خوانی کی رسم :ایصال ثواب کی یہ سب سے مشہور رسم ہے جس کے لئے مجلسیں منعقد کی جاتی ہیں اور اس کے لئے کرایے پر حافظ و قاری یا کھانے اور مٹھائی کے عوض مدرسے کے بچوں کو بلایا جاتا ہے ، یہ رسم بھی قرون اولی میں نہیں پائی جاتی تھی اور نہ ہی اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی پوری زندگی میں کسی کے لئے قرآن خوانی کروائی ہے ۔ اس سلسلے میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی جو حدیث پیش کی جاتی ہے کہ دفن کے بعد میت کے سراہنے سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات اور پیر کے پاس سورہ بقرہ کی آخری آیات پڑھو {شعب الایمان } یہ حدیث سخت ضعیف ہے ، اس کی سند میں ایک سے زائد راوی ضعیف ہیں ۔
[۳] تیجہ ، ساتا اور چہلم کی رسم :
یعنی میت کے دفن یا وفات کے تیسرے دن، ساتویں اور چالیسویں دن ورثہ کے گھر جمع ہونا اور طرح طرح کے کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا ، یہ رسم بھی غیر شرعی ہے بلکہ اس میں غیر قوم کی مشابہت اور میت کے ورثہ پر غیر ضروری بوجھ ڈالنا ہے ، بلکہ ورثہ کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے ۔
صحابی رسول حضرت جریر بن عبد اللہ کا بیان ہے کہ ہم لوگ یعنی صحابہ کرام میت والوں کے یہاں جمع ہونے کو اور {جمع ہونے والوں کے لئے } کھانا تیار کرنے کو نوحہ شمار کرتے تھے ۔ {سنن ابن ماجہ : 1612} ۔
[۴] جمعرات کی روٹی او ر شب براءت کا حلوہ :
ہندوں کی مشابہت میں مسلمانوں میں یہ بدعت بھی داخل ہوگئی ہے ،یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ جمعرات اور شعبان کی پندرہویں شب کو مردوں کی روحیں قید سےچھوٹتی ہیں ، پہلے وہ اپنی قبر پر جاتی ہیں اور پھر اپنے گھروں کو آتی ہیں اور نہایت ہی نرم آواز میں اپنے اقارب سے کچھ صدقہ وخیرات کا مطالبہ کرتی ہیں، پس اگر کچھ صدقات کردیئے جاتے ہیں تو وہ خوشی خوشی دعا دیتے ہوئے واپس چلی جاتی ہیں ورنہ ناراض واپس ہوتی ہیں ۔
یہ بھی ایک وہم اور باطل عقیدہ ہے جس کا تعلق اسلام سے دور کا بھی نہیں ہے ۔
[۵] برسی : ہندوں کی مشابہت میں بعض مسلمانوں کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ میت کے ورثہ اس وقت تک میت کے زیر سمجھے جاتے ہیں جب تک کہ اس کی وفات کے ایک سال پورا ہونے پر اپنی حیثیت کے مطابق دعوت وغیرہ کا انتظام نہ کریں ، وفات کا سال پورا ہونے پر رشتہ داروں ، دوستوں ، پڑوسیوں اور فقیروں کو جمع کرکے کچھ کھلا پلا دینا گویا میت کے حق سے سبک دوش ہونے کے لئے ضروری سمجھا جاتا ہے ،یہ رسم بھی غیر مسلموں سے لی گئی ہے جو سراسر بدعت ہے ۔