ایک عمرے اور دوسرے عمرے کے درمیان کتنے عرصے کا فرق ہونا چاہئے ۔میں نے دیکھا ہے کہ بعض حضرات روزانہ ہی مسجد عائشۃ {میقات}سے احرام باندھ کر عمرہ کرلیتے ہیں ۔ بعض دو تین دن بعد اور اسی طرح مختلف عرصہ بعد ۔ مسنون طریقہ کی وضاحت فرمادیں ۔؟ |
جواب السؤال |
بسم اللہ الرحمن الرحیم
جواب: بلاریب صحیح حدیث میں تعداد {کثرت}عمرہ کی ترغیب وارد ہے ۔ ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ درمیانی کوتاہیوں کیلئے کفارہ ہے ۔ اور حج مبرور {مقبول حج }کی جزاء صرف بہشت ہے ۔ بذات خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں چند ہی عمرے کئے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وائمہ سنت سے بھی چند ہی ثابت ہے ۔ دوعمروں کے درمیان وقفے کی کسی حدیث میں اگر چہ تصریح نہیں ، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام اور ائمہ سلف کے معمولات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بکثرت عمرے نہیں کرتے تھے ۔ اور مسجد عائشہ سے روزانہ یا ایک دن میں کئی دفعہ عمرے کرنے کا جوبعض لوگوں نے معمول بنارکھا ہے ، سنت سے قطعاثابت نہیں ۔ اگر یہاں سےاحرام باندھنے کی کوئی اہمیت ہو تی تو صحابہ کرام اور سلف صالحین یقینا اس کے زیادہ حقدار تھے ۔ لیکن اس سے ثابت نہیں کہ وہ وقفے وقفے بعد مسجد عائشہ سے احرام باندھ کر عمرے کرتے ہوں ، نہ روزانہ اور دوتین دن بعد ، نہ ہفتوں ، مہینوں اور نہ برسوں بعداس عادت کو بدلنا ضروری ہے ورنہ سنت میں دخل اندازی سمجھی جائے گی جو مقام خطر ہے ۔ ہاں زندگی میں جب کوئی شخص عمرہ کرنے کا ارادہ رکھا تا ہو تو مواقیت یاحل وغیرہ سے احرام باندھ کر عمرے کے لئے جاسکتا ہے جو باعث اجروثواب ہے ۔ {مرسل : قیصر محمود، ماخوذ از : ہفت روزہ الاعتصام لاہور 25/فروری /2000ء ص11-203} |