ایک گم شدہ سنّت/حديث نمبر :206

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :206

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ :26/27/ ربیع الثانی 1433 ھ، م 20/19،مارچ 2012م

ایک گم شدہ سنّت

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ رضي الله عنه ، عن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” صَلُّوا قَبْلَ الْمَغْرِبِ رَكْعَتَيْنِ ” ، قَالَ في الثَّالِثَةِ : ” لِمَنْ شَاءَ ” ، كَرَاهِيَةَ أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُنَّةً .

( صحيح البخاري :1183 ، التطوع ، سنن ابو داود :1281 ، الصلاة ,مسند أحمد :2/55 )

ترجمہ : حضرت عبد اللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : مغرب سے قبل دو رکعت پڑھو [تین بار فرمایا ] تیسری مرتبہ ارشاد فرمایا جو چاہے پڑھے ، اس خوف سے کہ کہیں لوگ اسے سنت راتبہ یا مؤکدہ نہ سمجھ لیں ۔

{ صحیح بخاری ، سنن ابو داود ، مسند احمد }

تشریح : ہر مسلمان پر فرض نمازیں پانچ ہیں اور ان میں کل سترہ رکعتیں فریضہ حتمیہ ہیں جن کا انکار یا ان میں تردد و کفر و زندقہ اور ان کی ادائیگی میں کوتاہی فسق و کفر اور جہنم میں جانے کا سبب اولیں ہیں چنانچہ اہل جہنم سے جب پوچھا جائے گا کہ تمہارے جہنم میں داخلے کا کیا سبب ہے تو وہ پہلا سبب ترک نماز بتلائیں گے ،[مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ*قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ المُصَلِّينَ] {المدَّثر:42-43} ” تمہیں جہنم میں کس چیز نے داخل کیا ، وہ جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ” ۔

پھر ان پنج وقتہ نمازوں کے آگے پیچھے کچھ نمازیں ، بطور نفل کے مقرر ہیں جن کی حیثیت فرض نمازوں کے مقدمہ و تمہید اور خاتمہ کی ہے ، ان نفل نمازوں میں سے کچھ نمازیں تو تاکیدی ہیں جن کی فضیلت کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کی تاکید بھی جناب رسالت سے وارد ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود بھی ان پر مداومت فرمائی ہے جیسے دس یا بارہ رکعتیں سنت راتبہ ، ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا : جو مسلمان بندہ اللہ تعالی کے لئے فرض نمازوں کے علاوہ روزآ نہ بارہ رکعتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں گھر بنادیتا ہے ، چار رکعت ظہر سے قبل ، دو رکعت ظہر کے بعد ، دو رکعت مغرب کے بعد دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے قبل ۔ صحیح مسلم ، وسنن الترمذی وغیرہ ، ان میں فجر کی دو رکعتوں کو اور اسی طرح وتر کی نماز کو جو اہمیت حاصل ہے وہ کسی اور نفل کو نہیں ہے ، ان کے علاوہ فرض نمازوں سے قبل وبعد کچھ اور رکعتیں بھی ثابت ہیں جنہیں یہ اہمیت تو حاصل نہیں ہے البتہ ان کے فضل و اجر سے انکار نہیں کیا جاسکتا انہیں میں سے مغرب کے فرض سے قبل دو رکعت نفل بھی ہے جسے ہمارے ملکوں میں آج لوگوں نے چھوڑ دیا ہے ، اس نماز کے بارے میں متعدد حدیثیں وارد ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت میں اس کی ایک اہمیت ہے چنانچہ زیر بحث حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا تین بار یہ فرمانا کہ “مغرب سے قبل دو رکعت پڑھ لیا کرو “اس کی اہمیت و تاکید کو واضح کرتا ہے ، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تیسری بار یہ فرمادیا کہ ” جو چاہے ” اس لئے اس کا حکم واجب یا سنتت مؤکدہ کا تو نہیں رہ جاتا البتہ اتنا ضرور ثابت ہے کہ مغرب سے قبل دو رکعتوں کا اہتمام بہت اہم ہے اور لوگوں میں پائے جانے والے اس نظریے کو باطل کرتا ہے کہ مغرب کا وقت بہت مختصر اور اس سے قبل کوئی سنت نہیں ہے ، حالانکہ اگر اس سلسلے میں وارد حدیثوں میں غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عہد نبوی اور اس کے بعد بھی صحابہ اس سنت پر عمل کرتے اور اس کا اہتمام کرتے رہے ہیں ۔

[۱] حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں مؤذن اذان دیتا تو بڑے بڑے اور چیدہ چیدہ صحابہ مسجد کے ستونوں کی طرف بڑھ کر مغرب سے پہلے کی دو رکعت نفل نماز پڑھتے حتی کہ بسا اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھانے کے لئے تشریف لاتے اور وہ لوگ ابھی نماز پڑھتے ہوتے اور یہ نماز اس کثرت سے لوگ ادا کرتے کہ کوئی اجنبی آدمی مسجد میں داخل ہوتا تو یہ سمجھتا کہ فرض نماز پڑھی جاچکی ہے اور لوگ یہ بعد والی سنت پڑھ رہے ہیں اور اس وقت اذان و اقامت کے درمیان معمولی فاصلہ ہوتا تھا ۔

{ صحیح بخاری ، صحیح مسلم ، مسند احمد وغیرہ ، دیکھئے الصحیحہ :234 }۔

[۲] حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ عہد نبوی میں سورج ڈوبنے کے بعد اور مغرب کی نماز سے قبل دو رکعت پڑھتے دیکھتے تھے لیکن آپ نے ہمیں نہ ہی حکم دیا اور نہ منع فرمایا ۔ صحیح مسلم وغیرہ ۔ حضرت انس کے اس بیان سے بھی واضح ہوتا ہے کہ لوگ عہد نبوی میں بکثرت اس سنت کو پڑھتے تھے ۔

[۳] حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مغرب سے قبل کی دو رکعت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا : عہد نبوی میں ہم ان دو رکعتوں کو پڑھا کرتے تھے ۔

{ صحیح بخاری و مسند احمد :4/155 وغیرہ } ۔

[۴] حضرات صحابہ جیسے عبد الرحمن بن عوف ، سعد بن ابی وقاص ، ابی بن کعب ، ابو الدرداء اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے بسند قوی مروی ہے کہ یہ لوگ اس سنت پر مداومت کرتے تھے { فتح الباری } ، اس کے بر خلاف کس بھی صحابی سے بسند صحیح ثابت نہیں کہ اس نے اس سنت کا انکار کیا ہو ،

{دیکھئے فتح الباری :2،ص:108-109 ، والصحیحہ :1،ص:469، 47 } ۔

اس نماز کی حکمت یہ بیان کی گئی ہے کہ اذان و اقامت کے درمیان کا وقت مبارک اور دعا کی قبولیت کے اوقات میں سے ہے ، اور وقت جس قدر مبارک ہوگا اس میں ادا کی گئی عبادت کا اجر بھی زیادہ ہوگا ۔{ فتح الباری :2،ص:109} لہذا بندوں سے مطالبہ ہے کہ اسے ضائع نہ ہونے دیں ، لیکن افسوس کی آج ہمارے ملکوں میں اس سنت کی اہمیت نہیں دی جاتی ، اس کے برخلاف نمازوں کے آگے پیچھے بہت سی ایسی نمازیں ایجاد کرلی ہیں جن کا ثبوت حدیث نبوی اور عمل صحابہ سے قطعا نہیں ہے ، مثلا مغرب کے سنتوں کے بعد دو رکعت بیٹھ کر نفل کے نام سے پڑھنا ، عشا کی نماز سے قبل چار رکعت سنت غیر مؤکدہ بتلانا وغیرہ ، یہ اوراسقسم کی بہت سی نمازیں سنت غیر مؤکدہ اور نفل کے نام پر ایجاد کرلی گئی ہیں جن کا ثبوت نہ حدیثوں سے ہے اور نہ سلف کے عمل سے ۔

فوائد :

۱- نماز مغرب سے قبل دو رکعت ایک اہم سنت ہے ۔

۲- سنت مؤکدہ اور غیرہ مؤکدہ میں فرق پایا جاتا ہے ۔

۳- آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ہر حکم ایک جیسا نہیں مانا جائے گا ۔

۴- کسی چیزکا ہمارے معاشرے میں ناپید ہونا ، شریعت میں نہ ہونے کے مترادف نہیں ہے ۔

ختم شدہ