بدلے کا بہتر بدلہ/حديث نمبر :224

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :224

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :16/17/ شوال 1433 ھ، م 04/03،ستمبر 2012م

بدلے کا بہتر بدلہ

عَنْ أَبِي قَتَادَةَ وَأَبِي الدَّهْمَاءِ قَالَا كَانَا يُكْثِرَانِ السَّفَرَ نَحْوَ هَذَا الْبَيْتِ قَالَا أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ فَقَالَ الْبَدَوِيُّ أَخَذَ بِيَدِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَقَالَ إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا اتِّقَاءَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا أَعْطَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهُ.

(مسند احمد5/76، السنن الكبرى5/335، الزهد لوكيع:356.)

ترجمہ :حضرت ابو قتادہ اور ابو دھماء رحمہما اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک صحرا نشین کے پاس آئے جس نے ہم سے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر بعض وہ باتیں سکھلانے لگے جو اللہ تعالی نے آپ کو سکھلائی تھیں ، انہیں میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقین مانو کہ اللہ تعالی کے ڈر سے تو کوئی عمل ترک نہیں کرے گا ، الا یہ کہ اللہ تعالی تجھے اس سے بہتر چیز عطا فرمائے گا ۔

{ مسند احمد ، سنن کبری ، الزہد لابن وکیع } ۔

تشریح: یہ پیاری حدیث نبوی ہر متقی مومن کے لئے ایک بہترین الہی تحفہ ہے ، اس میں مومن کے لئے تسلی و اطمیان کا سامان ہے کہ ہر وہ چیز جسے اللہ تعالی نے اس پر حرام قرار دیا ہے یا ہے تو حلال لیکن اخروی طور پر اس کے ترک میں ہی اس کے لئے خیر ہے ، لہذا اگر کوئی مومن بندہ اس چیز کو چھوڑ دیتا ہے یا کسی اور کو اپنے اوپر ترجیح دیتا ہے تو اللہ تعالی اس کا بدلہ جلدی یا دیر میں اس سے بہتر اور عمدہ چیز کی صورت میں دیتا ہے ۔ اس فرمان نبوی کی تہہ تک پہنچے اور اس سے مکمل طور پر مستفید ہونے کے لئے اس حدیث کے تینوں حصوں پر غور کرتا ہے ۔

[۱] ترک کرتا ہے : اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ اس کو عملی جامہ پہنادینے پر پوری قدرت رکھتا ہے ، اور اس پر عمل کرنا اس کےبس سے باہر نہیں ہے ، جیسے ایک شخص زنا پر قدرت رکھتا ہے اور زنا کے اسباب اس کے پاس مہیا ہیں ، لیکن قدرت کے باوجود بندہ زنا نہیں کرتا تو وہ اس اجر کا مستحق ہے ، اسی طرح ایک بندے کو غصہ آتا ہے اور اپنے غصے کو عملی جامہ پہنا دینے پر وہ قدرت بھی رکھتا ہے ، لیکن وہ غصہ پی جاتا ہے ، اسی طرح ایک شخص کے پاس فخر و مباہات کے سامان موجود ہیں اور اس کے باوجود تواضع و انکساری سے کام لیتا ہے تو وہ اس اجر کا مستحق ہے، البتہ وہ شخص جس کے پاس زنا کے وسائل نہیں ہیں ، وہ کمزور ہے ، غصہ کی حالت میں اپنے مخالف سے بدلہ نہیں لے سکتا یا اس کے پاس فخر ومباہات کے سامان مہیا ہی نہیں ہیں تو وہ اس اجر کا مستحق نہ ہوگا ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے اجر نہیں ملے گا ، ایسا نہیں بلکہ اس حدیث میں وارگ اجر وہ محروم رہے گا۔

[۲] اللہ کے ڈر سے : یہ جملہ بھی بہت اہم ہے کیونکہ بسا اوقات ایک شخص بہت سے گناہ کے کام اس لئے ترک کرتا ہے کہ اس عمل کی طرف اس کا میلان ہی نہیں ہوتا ، یا اس کے پاس اس گناہ کے وسائل ہی نہیں ہوتے

یا اس کام کو لوگوں کے خوف سے یا اپنے کسی دنیاوی فائدہ یا دنیاوی نقصان سے بچنے کے لئے ترک کررہا ہے وغیرہ وغیرہ، تو ایسا شخص بھی اس اجر عظیم کا مستحق نہ ٹھہرے گا ۔جیسے ایک شخص فطرۃ شہوت والا نہیں ہے یا غریب و فقیر ہونے کی وجہ سے یا بدصورت و کمزور ہونے کی وجہ اسے زنا کا موقعہ نہیں ملتا ، یا اپنی بے عزتی ، یا دنیاوی سزا کے خوف سے وہ زنا نہیں کرتا ، اسی طرح اس شخص کو غصہ تو آتا ہے لیکن کمزوری یا کسی دنیاوی مجبوری کی وجہ سے اپنے غصہ کو نافذ نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ ، تو ایسا شخص بھی اس اجر عظیم کا مستحق نہ ٹھہرے گا ۔ انہیں دونوں باتوں کو اس فرمان الہی میں واضح کیا ہے :

وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَى (40) فَإِنَّ الْجَنَّةَ هِيَ الْمَأْوَى (41) النازعات .

” اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف کھائے اور اپنے نفس کو خواہش سے روکے تو اس کا ٹھکانا جنت ہی ہے” ۔

نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : جو شخص اپنے غصے کو پی گیا حالانکہ اگر وہ نافذ کرنا چاہتا تو اسے نافذ کرسکتا تھا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جنت کی جتنی حوروں سے شادی کرنا چاہے شادی کرلے ۔ { سنن اربعہ ، بروایت معاذ بن انس }۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ جو شخص [ عمدہ اور فخر و مباہات کے ] لباس کو بطور خاکساری کے اللہ کے لئے چھوڑ دیتا ہے ،حالانکہ وہ اس لباس کو استعمال کرسکتا تھا توا للہ تعالی قیامت کے دن اسے تمام مخلوق کے سامنے یہ اختیار دیگا کہ ایمان کے جس جوڑے کو چاہے زیب تن کرلے ۔

{ سنن الترمذی ، مستدرک الحاکم ، بروایت معاذ بن انس } ۔

اس سلسلے میں حدیثیں بے شمار ہیں ۔

[۳] اللہ تعالی اسے اچھا بدلہ دے گا : یہ بدلہ مادی بھی ہوسکتا ہے اور معنوی بھی ، فوری بھی ہوسکتا ہے اور تاخیر سے بھی ، دنیا میں بھی ہوسکتا ہے اور آخرت مین بھی ، جس چیز کو چھوڑا ہے اسی کے جنس سے بھی ہوسکتا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور صورت میں بھی ، جیسا کہ متقدمین و متاخرین کی بہت سی مثالیں قرآن و حدیث اور سلف کے تذکرے میں موجود ہیں ، چنانچہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے جہاد کے لئے تیار کردہ گھوڑوں کو صرف اللہ تعالی کے لئے چھوڑا تو اللہ تعالی نے انہیں ہوا کی نعمت سے نوازا جس کے ذریعہ ایک ماہ کی مسافت صرف صبح کے وقت یا شام کے وقت طے کرلیا کرتے تھے ، حضرت یوسف علیہالسلام نے اللہ تعالی کے لئے اپنی شہوت کو قابو میں رکھا تو انہیں پورے مصر کی حکومت حاصل ہوگئی وغیرہ وغیرہ ۔

اور یہی کیا کم ہے کہ اگر ایمان زندہ ہے تو کسی بھی برائی کے ترک پر ایک مومن افسوس نہیں کرتا بلکہ اسے سکون و اطمینان کی نعمت حاصل ہوتی ہے ۔

فائدہ:

۱- اس امت پر اللہ تعالی کا فضل عظیم ہے ۔

۲- انسان اگر گناہ کا کام بھی اللہ تعالی کی رضا کے لئے چھوڑ دیتا ہے تو اللہ تعالی اس سے بہتر چیز عطا فرماتا ہے ۔

۳- جو انسان جیسا کرتا ہے اسے اس کا ویسا ہی پھل ملتا ہے ۔

ختم شدہ