بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :02 خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ بتاریخ :22/23/ صفر 1428 ھ، م 13/12،مارچ 2007م جھوٹ کا انجام عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- « مَنْ كَذَبَ عَلَىَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ». (صحيح البخاري:110العلم، صحيح مسلم:3 المقدمة.) ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میرے اوپر عمدا جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے ۔ { صحیح بخاری ومسلم } ۔ تشریح : جھوٹ شریعت کی نظر میں گناہ کبیرہ اور بڑا جرم ہے ، جھوٹ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر نفرت تھی کہ اگر کسی کے بارے میں جھوٹ کو آزمالیتے تو اس کے خلاف اپنے دل میں نفرت وبغض کو جگہ دیتے اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک کہ آپ یہ محسوس کرلیتے کہ اس جرم سے سچی توبہ کرلی ہے ۔ { مسند احمد و صحیح ابن حبان بروایت عائشہ } ۔ کیونکہ جھوٹ ایک ایسی برائی ہے جو جھوٹے شخص کے اندرونی فساد کی غماز ہوتی ہے ، جھوٹ میں اللہ کی مخلوق کے ساتھ دھوکہ اور فریب ہوتا ہے ، جھوٹ کفر کا پیش خیمہ اور نفاق کی نشانی ہے اس لئے اسلام نے جھوٹ کو حرام اور شرک کا ہم پلہ قرار دیا ہے : فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ (30) الحج. ” بتوں کی گندگی سے بچو اورجھوٹی بات سے بھی پرہیز کرو ” ۔ اس جرم عظیم کی مختلف شکلیں ہیں اور جو شکل اپنے اندر جس قدر دھوکہ اور خرابی لئے ہوئے ہے وہ شریعت کی نظر میں اسی قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے چنانچہ صحافی جو ہزاروں آدمی کو جھوٹی خبروں سے گمراہ کردیتا ہے سیاستداں جو بڑے ہم مسائل کو بگاڑ کر لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں، خود غرض لوگ جو بڑے آدمیوں اور بلند کردار عورتوں کے خلاف تہمتوں سے بازار گرم کردیتے ہیں، یہ سب کے سب بڑے بھیانک جرم کے مرتکب ہورہے ہیں ، حاکموں کا اپنی رعایا سے جھوٹے دعوے کرنا بھی اسی فہرست میں آتا ہے ، البتہ ا ن میں سب سے بڑا گناہ اور خطرناک جھوٹ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ بولنا ہے اور یہی اس حدیث کا اصل موضوع ہے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت اللہ تبارک وتعالی کی طرف سے ایک پیغام رسا کی ہے اور رسول کا ہر حکم اسی طرح قابل عمل ہے جس طرح کہ اللہ تعالی کا حکم قابل عمل ہوتا ہے ، اللہ تبارک وتعالی کا ارشاد ہے : مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ۔ النساء:80۔ ” اور اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جواطاعت کرے تو اس نے اللہ تعالی کی فرمانبرداری کی ہے ” ۔ اب اگر کوئی شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے تو سننے والا اس پر عمل کرنے اور اسے اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی کوشش یہ سمجھتے ہوئے کرےگا کہ یہ فرمان رسول اور شریعت ہے ۔ جب کہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ، اس طرح دین میں بدعات و خرافات کا دروازہ کھل جاتا ہے اور سنت و بدعت ، حق وناحق اور شریعت وضلالت میں تمیز مشکل ہوجاتی ہے ، اس جرم عظیم کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالی نے ایسے شخص کی سزا بہت ہی سخت رکھی ہے ، ارشاد باری تعالی ہے : وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّهِ وُجُوهُهُمْ مُسْوَدَّةٌ أَلَيْسَ فِي جَهَنَّمَ مَثْوًى لِلْمُتَكَبِّرِينَ (60)الزمر. ” اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوگئے ہوں گے ، کیا تکبر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم میں نہیں ” اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنے میں درج ذیل باتیں بھی شامل ہیں : ۱- بدعات و خرفات کا ایجاد کرنا اور اسے رواج دینا ، کیونکہ عوام اسے دین اور حکم الہی وفرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر ہی اس پر عمل کرتی ہے ۔ ۲- موضوع و من گھڑت اور سخت ضعیف حدیثیں لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور ان پر عمل کی دعوت دینا ۔ ۳- اللہ کے کے رسول کا ارشاد ہے :” مَنْ حَدَّثَ عَنِّى بِحَدِيثٍ يُرَى أَنَّهُ كَذِبٌ فَهُوَ أَحَدُ الْكَاذِبِينَ “. ” جو شخص میری طرف منسوب کرکے کوئی ایسی حدیث بیان کرے جسے وہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے تو وہ بھی جھوٹوں میں سے ایک ہے ” ۔{ صحیح مسلم } فوائد : ۱- جھوٹ کبیرہ گناہ اور حقیقی ایمان کے منافی کام ہے ۔ ۲- رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جھوٹ بولنا ، جھوٹ کی بدترین صورتوں میں سے ہے حتی کہ بعض علماء نے اسے کفر قرار دیا ہے ۔ ۳- مسلمان کو چاہئے کہ بدعت ، من گھڑت حدیثوں اور ضعیف حدیثوں پر عمل سے پرہیز کرے ۔ ۴- جھوٹے قصے کہانیاں جو دین کے نام پر دینی مجلسوں میں بیان کی جاتی ہیں وہ بھی اسی حدیث کی زد میں آتی ہیں ۔ ختم شدہ |