بسم اللہ الرحمن الرحیم
286:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
حرکت کی قسمیں
بتاریخ : 09/ ربیع الآخر 1437 ھ، م 19، جنوری2016 م
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” لَأَنْ يُمْسِكَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَنِ الْحَصْبَاءِ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَهُ مِائَةُ نَاقَةٍ كُلُّهَا سُودُ الْحَدَقَةِ، فَإِنْ غَلَبَ أَحَدَكُمُ الشَّيْطَانُ، فَلْيَمْسَحْ مَسْحَةً وَاحِدَةً “.مسند احمد3/328، صحيح ابن خزيمة:897
ترجمہ : حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں کا کوئی شخص اگر نماز میں کنکریاں چھونے [برابر کرنے ] سے اپنے ہاتھ کو روکے رکھے تو یہ اس کے لئے ایسی سو اونٹنیوں سے بہتر ہے جن کی آنکھیں سیاہ ہوں ، پھر اگر کسی پر شیطان کا غلبہ ہی ہوجائے تو صرف ایک بار چھونا [برابر کرنا ] چاہئے ۔ {مسند احمد ، صحیح ابن خزیمہ } ۔
تشریح: جب بندہ نماز میں داخل ہو تو اس سے مطالبہ ہے کہ وہ ایسی حرکت نہ کرے جو کسی عظیم ذات کے سامنے حاضری کی صورت میں بے ادبی تصور کی جاتی ہے، چنانچہ اسے چاہئے کہ قلب و قالب سے اللہ تعالی کی طرف متوجہ اور اعمال عبودیت میں منہمک رہے ، نماز کی حالت میں بہ قصد خیالات و وساوس کے ہجوم سے دل کو محفوظ رکھے اور اللہ تعالی کی عظمت و جلالت کا نقش اپنے دل میں بٹھانے کی سعی کرے ، اعضاء و جوارح میں یکسوئی اس طرح اختیار کرے کہ ادھر ادھر نہ دیکھے ، کھیل نہ کرے ،بالوں اور کپڑوں کو سنوار نے میں نہ لگا رہے بلکہ خوف و خشیت اور عاجزی و فروتنی کی ایسی کیفیت طاری ہو جیسے عام طور پر بادشاہ یا کسی بڑے شخص کے سامنے ہوتی ہے ۔ {تفسیر احسن البیان } ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے متعدد جگہ اپنے بندوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے:وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238)اور اللہ تعالی کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو ۔ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (1) الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (2)یقینا وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں عاجزی اختیار کرتے ہیں ۔ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” اسکنوا فی الصلاۃ ” نماز میں سکون اختیار کرو ۔ {صحیح مسلم ، سنن ابو داود } ۔ زیر بحث حدیث میں اسی امر کی اہمیت بیان ہوئی ہے ، عہد نبوی میں مسجدوں میں چٹائی یا قالین و غیرہ کا اہتمام نہیں تھا ،بلکہ مٹی سے بچنے کے لئے مسجد نبوی اور دیگر مسجدوں میں باریک باریک کنکریاں بچھا دی گئی تھیں ، نیز مسجد سے باہر بھی عموما مدینہ منورہ کی زمین پتھریلی ہی تھی جو عام زمین یا چٹائی کی طرح برابر نہ ہوتی تھی جس کی وجہ سے پیشانی میں چبھ جانے کا امکان رہتا تھا ، اس لئے لوگ ان کنکریوں کو برابر کرتے بلکہ بسا اوقات حالت نماز میں جب سجدہ کرنا چاہتے تو اپنے ہاتھوں سے سجدے کی جگہ کی کنکریاں برابر کرتے یا صاف کردیتے ، لیکن چونکہ یہ امر کسی حد تک نماز کے ادب کے خلاف اور خشوع وخضوع کے منافی تھا اس لئے نبی ﷺ نے اس سے منع فرمایا ، اس سلسلے میں چند ہدایات فرمائیں : [۱] نماز میں داخل ہوجانے کے بعد سامنے کی کنکریوں کو صاف نہ کیا جائے اورنہ ان سے تعرض کیا جائے ، کیونکہ اس وقت رحمت الہی بندے کے روبرو ہوتی ہے ، ایسی حالت میں ان کنکریوں کو ادھر ادھر کرنا گویا رحمت الہی سے تعرض کرنا ہے ۔ {سنن ابو داود : 945 } ۔
[۲] اگر کوئی شدید مجبوری ہے اور ان کنکریوں پر سجدہ کرنا اذی اور تکلیف کا سبب ہے، جیسے کنکریاں اونچی نیچی ہوں جس سے نماز کا سکون جاتا رہے گا تو صرف ایک بار ہاتھ پھیر دینے کی اجازت ہے ۔ {صحیح بخاری } ۔ [۳] لیکن اگر کوئی ایسی اذیت کو برداشت کرتا ہے اور اس سے نماز کی روح میں کوئی خلل واقع نہیں ہوتا تو یہ بہت بڑے اجر کا سبب ہے کہ اس رکنے کے عوض کے سبب اسے نہایت ہی قیمتی سو اونٹنیاں ملنے والی ہیں ، جیسا کہ زیر بحث حدیث سے واضح ہے ۔ [۴] نبی ﷺ کی زیر بحث حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان مردود حالت نماز میں نمازیوں کو ایسی حرکتوں پر اکساتا ہے جو ادب نماز کے خلاف ہیں ، لہذا نمازی کو چاہئے کہ بغیر کسی مجبوری یا شدید حاجت کے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو ادب نماز کے خلاف ہو ، جیسے ادھر ادھر دیکھنا ، اپنے کپڑوں کو برابر کرنا ،
اپنے ہاتھوں کو باندھنے کی جگہ سے بار بار ہٹا نا ، اپنے بالوں سے کھیلنا یا ناک و غیرہ صاف کرنا وغیرہ وغیرہ ۔ اس مناسبت سے ہمیں یہ دیکھ لینا چاہئے کہ نماز میِں جو حرکتیں ہوتی ہیں یا کرنی پڑتی ہیں ا ن کی شرعی حیثیت کیا ہے چنانچہ علامہ قصیم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے اس سے متعلق بڑی مفید گفتگو کی ہے ،ان سے سوال کیا گیا کہ نماز میں حرکت کرنے کا کیا حکم ہے تو ان کا جواب تھا : اصل تو یہ ہے کہ بلاحاجت نماز میں حرکت کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ امر ہے ، باوجود اس کے نماز میں حرکتوں کی پانچ قسمیں ہیں :
۱- واجبی حرکت ۔ ۲- حرام حرکت ۔ ۳- مکروہ حرکت ۔ ۴- مستحب حرکت ۔ ۵- جائز حرکت ۔
[۱] واجبی حرکت : اس سے مراد وہ حرکت ہے کہ بغیر اس کے نماز ہوگی ہی نہیں ، جیسے اس کے کپڑے میں نجاست لگی ہو تو اس کے زائل کرنےاور نکالنے کے لئے حرکت کرنا ضروری ہے ، جس طرح کہایک بار نبی ﷺ کو جب حضرت جبریل نے بتلایا کہ آپ کے جوتوں میں گندگی لگی ہے تو آپ نے انہیں نکال دیا اور نماز جاری رکھی ۔ {سنن ابو داود } اسی طرح ایک شخص غیر قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہا ہے اور کوئی شخص اسے اطلاع دیتا ہے تو اس پر واجب ہے کہ حرکت کرے اور قبلہ تبدیل لے ۔
[۲] حرام حرکت : اس سے مراد وہ حرکتیں ہیں جو بغیر ضرورت اور بکثرت کی جائیں کیونکہ ان سے نماز باطل ہوجاتی ہے اور جس حرکت سے نماز باطل ہو اس کا کرنا جائز نہیں ہے بلکہ یہ تو اللہ کے احکام کا مذاق اڑانا ہے ۔
[۳] مستحب حرکت : اس سے مراد وہ حرکت ہے جو نماز میں کسی مستحب امر کے لئے کی جائے جیسے صف کو برابر کرنے کے لئے ، یا اپنے سامنے والی صف میں خالی جگہ پرنے کے لئے حرکت کی جائے ، یا صف سمٹ گئی تو اس خالی جگہ کو پر کرنے کے لئے حرکت کی جائے، اس قسم کی اور دیگر حرکتیں جو نماز میں کسی مستحب عمل کے انجام دہی کے لئے کرنی پڑیں ، کیونکہ یہ نماز کی تکمیل کا ذریعہ ہے، اسی لئے ایک بار جب حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نبی ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے آپ کی بائیں جانب کھڑے ہوگئے تو نبی ﷺ نے ان کا سر پکڑ کر انہیں اپنے پیچھے سے لا کر اپنی دائیں جانب کھڑا کردیا ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
[۴] جائز حرکت : البتہ جائز حرکت سے وہ معمولی حرکت مراد ہے جو نماز میں کسی حاجت کے پیش نظر کی جائے یا وہ زیادہ حرکت ہے جو نماز میں کسی ضرورت کے پیش نظر کی جائے ، معمولی حرکت کی مثال نبی ﷺ کا وہ عمل ہے کہ جب آپ اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے ، حالت قیام میں انہیں اپنے کندھے پر بٹھا لیتے اور سجدہ کرتے وقت انہیں نیچے بٹھا دیتے ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔
اور ضرورت کے تحت زیادہ حرکت کی مثال یہ فرمان الہی ہے : حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ (238) فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا فَإِذَا أَمِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَمَا عَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (239)
نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی اور اللہ تعالی کے لئے با ادب کھڑے رہا کرو اور اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل ہی سہی یا سواری ہی سہی ، ہاں جب امن ہوجائے تو اللہ کا ذکر کرو جس طرح کہ اس نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی جسے تم نہیں جانتے تھے ۔
اس لئے کہ جو شخص چلتے ہوئے نماز پڑھتا رہے گا تو بلاشبہ اس کا یہ عمل زیادہ ہوگا لیکن چونکہ ضرورت کے تحت ہے لہذا یہ جائز ہوگا اور اس سے نماز باطل نہ ہوگی ۔
[۵] مکروہ حرکت : ان مذکورہ حرکتوں کے علاوہ ہے اور یہی اصل ہے کہ نماز میں حرکت کرنا مکروہ ہے ، لہذا ہم ان لوگوں سے کہتے ہیں جو اپنی نمازوں میں حرکت کرتے رہتے ہیں کہ تمہارا یہ عمل مکروہ اور نماز میں خلل و نقص کا سبب ہے ، اور یہ چیز ہر شخص کے مشاہدے میں ہے کہ کوئی اپنی گھڑی سے کھیل رہا ہے ، یا قلم سے ، یا اپنے رومال سے یا اپنی ناک سے یا اپنی داڑھی سے یا اس قسم کی دیگر چیزوں سے کھیلتا رہتا ہے ، یہ تمام حرکتیں مکروہ کے قبیل سے ہیں ہاں اگر یہی حرکتیں پے درپے دور زیادہ ہوجائیں گی تو حرام اور نماز کے بطلان کا سبب ہونگی ۔ {مجموع الفتاوی : 13/309-311}۔