بسم اللہ الرحمن الرحیم
283:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
دلیل میلاد النبی
بتاریخ : 04/ ربیع الاول 1437 ھ، م 15، ڈسمبر2015 م
ترجمہ : حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ مسجد میں حاضرین کے ایک حلقے پر آئے اور ان سے پوچھا : تم یہاں کس مقصد کے لئے بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا :ہم بیٹھے اللہ کا ذکر کررہے ہیں ، حضرت معاویہ نے فرمایا : اللہ کی قسم تم اسی مقصد کے لئے بیٹھے ہو ؟ انہوں نے کہا : اللہ کی قسم ہم صرف اسی مقصد کے لئے بیٹھے ہیں ” حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نےفرمایا : دھیان رکھو میں نے تم سے قسم اس لئے نہیں اٹھوائی کہ تمہیں جھوٹا سمجھ رہا ہوں ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جسے رسول اللہ ﷺ کا قرب مجھ جیسا حاصل ہو اور وہ مجھ سے کم حدیثیں بیان کرنے والا ہو ، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک بار اپنے صحابہ کے ایک حلقہ ذکر پر تشریف لائے اور پوچھا : تم لوگ کس مقصد کے لئے بیٹھے ہو ؟ لوگوں نے جواب دیا : ہم بیٹھے اللہ تعالی کا ذکر کررہے ہیں اوراس بات پر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کررہے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت سے نوازا اور اس کے ذریعہ ہمارے اوپر بڑا احسان کیا [بعض رواتوں میں یہ ہے کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالی نے ہم پر احسان کیا ہے]، رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا :اللہ کی قسم تمہارے بیٹھنے کا صرف یہی مقصد ہے ؟ انہوں نے جواب دیا اللہ کی قسم اس کے سوا ہمارے بیٹھنے کا کوئی مقصد نہیں ہے ، نبی ﷺ نےفرمایا : یاد رکھو میں نے تم سے قسم تمہیں جھوٹ سے متہم کرتے ہوئے نہیں لی بلکہ اصل بات یہ ہےکہ حضرت جبریل میرے پاس آئے اور مجھے اطلاع دی کی اللہ تعالی تم پر فرشتوں کے سامنے فخر کررہا ہے ۔
{ صحیح مسلم ، سنن الترمذی ، سنن النسائی } ۔
تشریح:اللہ تعالی کا ذکر اور اس کے لئے مجلسوں کا انعقاد اللہ تعالی کو بہت زیادہ پسند ہیں ، ذکر و مجالس کا اہتمام کرنے والے اللہ تعالی کے بڑے مقرب بندے ہیں جن پر اللہ تعالی کی خصوصی رحمتیں رہتی ہیں، بلکہ ایسے لوگوں کے چار فضائل ایسے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک فضیلت کو ساری دنیا کی دولت سے بھی تولا نہیں جاسکتا ہے ، چنانچہ صحیح مسلم وغیرہ کی متعدد حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ جو قوم بھی اللہ تعالی کو یاد کرنے کے لئے کوئی مجلس منعقد کرتی ہے تو ان کی ایک فضیلت یہ ہے کہ فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں اور ان کے نزدیک اس کثیر تعداد میں فرشتے جمع ہوجاتے ہیں کہ جگہ کی تنگی اور مجلس ذکر کی حرص کی وجہ سے ایک دوسرے کے اوپر اس طرح بیٹھ جاتے ہیں کہ ان کا سلسلہ عرش تک پہنچ جاتا ہے ، دوسری فضیلت یہ ہے کہ رحمت الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے [ کیونکہ اللہ تعالی کی رحمت اللہ کے نیک بندوں کے قریب ہوتی ہے[إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ (56)الاعراف] ۔ اور ان کے اس عمل سے اللہ تعالی اس قدر خوش ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ بیٹھنے والا اگر کوئی برا شخص بھی ہوتا ہے یا جس کی نیت مجلس میں بیٹھنے کی نہیں ہوتی بلکہ صرف لوگوں کے لحاظ میں بیٹھا رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کو بھی اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے دیتا ہے ، مجالس ذکر میں حاضری کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں سکینت و اطمیان نازل ہوتا ہے ، سچ فرمایا اللہ تعالی نے : [أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (28) الرعد] مجالس ذکر میں حاضری کی چوتھی بڑی فضیلت یہ ہے کہ ایسے لوگ ہوتے تو زمین پر ہیں لیکن ان کا ذکر آسمانوں میں ہوتا رہتا ہے اور صرف ذکر ہی نہیں بلکہ اللہ تعالی اپنے مقرب فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر بطور فخر کے کرتا ہے کہ دیکھو میرے ان بندوں کو جن کے اندر میں نے شہوت بھی رکھی ہے ، خواہشات کا پیکر بھی بنایا ہے ، ان کے پیچھے شیطان بھی لگا ہوا ہے
اور اپنے پورے لشکر کو ان کے خلاف لگا دیا ہے ، اس کے باوجود وہ کس طرح ان رکاوٹوں پر غالب آکر میری عبادت اور میرے ذکر کے لئے وقت نکالےہوئے ہیں ، لہذا یہ اس بات کے حقدار ہیں کہ تم سے زیادہ ان کی تعریف کی جائے اور تم سے زیادہ عمدہ عمل والے ٹھہرائے جائیں ۔
یہی اہم بات ہے جو زیر بحث حدیث میں بیان کی گئی ہے ، لیکن بعض لوگوں کو میں نے سنا ہے کہ وہ اس حدیث سے مروجہ محفل میلاد کی بدعت پر دلیل لیتے ہیں ،جبکہ یہ حدیث مروجہ بدعت کے لئے کسی بھی طرح دلیل نہیں بن سکتی کیونکہ :
[۱] اس حدیث کا تعلق عام مجالس ذکر و علم سے ہے ، نہ اس میں ماہ ربیع الاول کا ذکر ہے اورنہ بارہ ربیع الاول کی تعیین ہے جبکہ میلاد النبی کے لئے ربیع الاول کا مہینہ متعین مانا جاتا ہے ۔ [۲] یہ مجلس مسجد میں صرف اتفاقی طور پر منعقد ہوگئی تھی نہ اس کے لئے کوئی تاریخ متعین کی گئی تھی اور نہ ہی اس کا مقصد نبی ﷺ کی میلاد پر خوشی منانا تھا ۔ [۳] اس حدیث سے آج تک کسی بھی معتبر عالم نے جشن عید میلاد النبی ﷺ کے انعقاد پر دلیل نہیں لی ہے ۔
[۴] اس حدیث کے بعض الفاظ اس طرح ہے کہ : ہم بیٹھے اس امر پر اللہ تعالی کی حمد کررہے تھے کہ اس نے اپنے دین کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی اور آپ جیسے نبی کو بھیج کر ہمارے اوپر احسان کیا ” {سنن النسائی ، مسند احمد } اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ باہم بیٹھ کر عصر جاہلیت کو یاد کرکے ان کی حالت پر افسوس کررہے تھے اورا س پر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کررہے تھے کہ ہم پر اللہ تعالی کا بہت بڑا کرم ہے کہ اس نے نبی ﷺ کو اسلام دے کر بھیجا اور جاہلیت کی گندگی سے نکال کر ہم پر بڑا احسان کیا ، نہ کہ عید میلاد النبی کا جلسہ منعقد کئے ہوئے تھے ۔غرض یہ کہ اس حدیث کا تعلق دور سے بھی عید میلاد سے نہیں ہے ۔
اس حدیث سے مزید ایک اور مسئلے پر روشنی پڑتی ہے کہ بار بار قسم کھانا شرعا غیر مرغوب امر ہے، لیکن کچھ صورتیں ایسی ہیں جہاں قسم کھانا ایک پسندیدہ عمل ہے ، ان میں سے تین سبب پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے ۔
[۱] کسی بات کی اہمیت کو ظاہر کرنا مقصود ہو اور سامع کے لئے اسے موکد کرنا اور یقینی بنانا ہو ۔ قرآن مجید میں موجود قسموں کا یہی مقصد ہے اورنبی ﷺ نے عموما قسمیں اسی مقصد کے لئے کھائی تھیں ، اور یہاں بھی آپ ﷺ نے جو لوگوں سے قسم لی ہے اس کا مقصد بھی مجالس ذکر کی اہمیت کو واضح کرنا ہے ۔
[۲] سنت پر عمل کی غرض سے بھی قسم کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چنانچہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے جو قسم کھائی تھی یا قسم لی تھی اس کا مقصد بھی اتباع سنت تھا ۔
[۳] تعلیم کی غرض سے ۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے قسم کھائی یا حلف لیا جاسکتا ہے ، کیونکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصل مقصد نبی ﷺ کی حدیث لوگوں تک پہنچانا تھا ۔
فوائد :
- دینی اجتماع اور اس میں حاضری کی فضیلت ۔
- اللہ تعالی کی نعمتوں کے ذکر کے لئے بیٹھنا بھی مجلس ذکر میں داخل ہے ۔
- اس فضیلت کی مستحق وہی مجلسیں ہیں جو مصنوعی اذکار اور طریقے سے پاک ہوں ۔
- انسان اگر اللہ تعالی کی رضا میں کوشاں رہے تو وہ اشرف المخلوقات ہے ۔