بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان انسائیکلوپیڈیا
بتاریخ :3،رمضان 1433ھ
از قلم :شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
رمضان اور رویت ہلال [2]
رویت ہلا ل– چاند دیکھنا : چاند دیکھنا ، چاند نظر آنا ، رمضان کا چاند اور عید کا چاند وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو ہمارے یہاں جانے پہچانے ہیں ، البتہ شرعی طور پر ان سے متعلقہ کچھ احکام ہیں جنہیں جاننا بہت ضروری ہے ۔
[۱] اسلام میں تمام معاملات خصوصا عبادات سے متعلقہ امور میں صرف قمری مہینوں کا اعتبار ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے :
” مہینوں کی گنتی اللہ تعالی کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہے اس دن سے جب سے آسمان اور زمین کو اس نے پیدا کیا ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ” ۔
[۲] قمری مہینوں کے معلوم کرنے کا واحد ذریعہ رویت ہے یعنی افق مغرف پر ہلال نو کا نظر آجانا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : کبھی مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ، سو جب چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب چاند دیکھو تو افطار کرو ، پھر اگر تم پر بادل چھا جائے تو تیس کی گنتی پوری کرو ۔
{ سنن النسائی : 2140 }
[۳] قمری مہینوں کو معلوم کرنے کے لئے علم فلک یا نجومیوں پر اعتماد صحیح نہ ہوگا ۔ ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : جب تک {رمضان کا} چاند نہ دیکھو روزہ نہ رکھو اور جب تک [ شوال کا ] چاند نہ دیکھو روزہ افطار نہ کرو ۔
{ مشکاۃ المصابیح : 1/615 } ۔
[۴] رویت ہلال ایک شرعی مسئلہ ہے اور بسا اوقات اس کا اہتمام کرنا وجوب کو پہنچ جاتا ہے ۔ ۔ ارشاد نبوی ہے : رمضان کے لئے شعبان کے دنوں کو شمار کرکے رکھو ۔ { سنن الترمذی : 687 } ۔ نیز رسول صلی اللہ علیہ وسلمشعبان کے دنوں کا جتنا اہتمام فرماتے کسی اور مہینے کے دنوں کا اہتمام نہیں فرماتے تھے پھر چاند دیکھ کر روزہ رکھتے ، پھر اگر بادل چھا جائے ہوتے تو تیس دن پورے کرتے پھر روزہ رکھتے ۔ ۔
{ ابو داود : 2325 } ۔
[۵] کسی جگہ ایک بھی قابل اعتماد مسلمان چاند دیکھ لے تو سب کو اس کی رویت پر عمل کرنا ہوگا ہر شخص کا فردا فردا چاند دیکھنا شرط نہیں : ایک بادیہ نشین خدمت نبوی میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ میں نے چاند دیکھا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوال کیا : کیا تو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی گواہی دیتا ہے ؟ اس نے جواب دیا جی ہاں ، آپ نے حضرت بلال کو حکم دیا کہ اعلان کردو کہ سب لوگ کل روزہ رکھیں ۔
{ سنن ابو داود : 2340 – سنن الترمذی : 691 ، بروایت ابو داد } ۔
[۶] صرف ایک قابل اعتماد مسلمان کی گواہی کافی ہے البتہ اگر چاند کی گواہی دو مسلمان دیں تو یہ بہتر ہے : ارشاد نبوی ہے : چاند دیکھ کر روزہ رکھو ، چاند ہی دیکھ کر افطار کرو اور قربانی بھی چاند ہی کے اعتبار سے کرو پھر اگر بدلی ہو [ اور چاند نظر نہ آئے ] تو تیس کی گنتی پوری کرو ، نیز اگر دو گواہ چاند کی گواہی دے دیں تو اس پر اعتماد کرتے ہوئے روزہ رکھو اور افطار کرو ۔
{ سنن النسائی : 4/321 } ۔
[۷] مطلع کے اختلاف کی صورت میں کسی اور جگہ کی رویت کا اعتبار نہ ہوگا :
حضرت کریب مولی عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام الفضل نے مجھے شام کی طرف حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ابھی میں وہیں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آیا ، ، پھر جب ماہ رمضان کے آخر میں مدینہ منورہ واپس آیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس نے پوچھا : تم لوگوں نے چاند کب دیکھا ہے ؟ میں نے جواب دیا جمعرات کو دیکھا تھا ، میں نے بھی دیکھا ، لوگوں نے بھی چاند دیکھا اور اس کے مطابق لوگوں نے اور معاویہ نے بھی روزہ رکھا ، حضرت عبد اللہ بن عباس نے فرمایا : لیکن ہم لوگوں نے تو ہفتہ کی شب یعنی جمعہ کی شام چاند دیکھا ہے ، اس لئے ہم اسی حساب سے برابر روزہ رکھتے رہیں گے حتی کہ تیس روزے پورے ہوجائیں یا اس سے قبل چاند نظر آجائے ، کریب کہتے ہیں کہ میں نے کہا : کیا آپ حضرت معاویہ کی رویت اور ان کے روزے کا اعتبار نہیں کرتے ، حضرت عبد اللہ بن عباس نے جواب دیا : نہیں ، ایسی بات نہیں ہے بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسا ہی حکم دیا ہے ۔
{ صحیح مسلم : 8087 – مسند احمد : 1/306 }
واضح رہے کہ اہل مشرق کا چاند دیکھنا اہل مغرب کے حجت ہے البتہ اہل مغرب کی رویت اہل مشرق لے لئے حجت نہیں ہے٫
[۸] اگر کوئی شخص چاند دیکھ لے تو اسے چاہئے کہ مسلمانوں یا ان کے ذمہ داروں کو اس کی اطلاع دے، بلکہ اگر رمضان و شوال وغیرہ کاچاند ہے تو خبر دینا واجب ہے ۔ ۔۔ حضرت ابن عمر کا بیان ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی [ لیکن کسی کو نظر نہ آیا اور میں نے دیکھ لیا تو ] میں فورا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور بتلایا کہ میں نے چاند دیکھا ہے ، آپ نے لوگوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ۔
{ سنن ابو داود : 2343 } ۔
[۹] اگر کوئی شخص چاند دیکھ لے اور حاکم وقت یا مسلمانوں کی جماعت کسی شرعی بنیاد پر اس کی رویت کا اعتبار نہ کریں تو اسے اکیلے عید وغیرہ منانے کا حق نہیں ہے ۔ ۔۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، روزہ اس دن کا ہے جب سب لوگ روزہ رکھنا شروع کریں اور عید اس دن منائی جائے گی جب سب لوگ عید منائیں ۔
{ ابو داود : 2324 – الترمذی : 697 } ۔
[۱۰] اگر چاند دیکھنے میں غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے روزے کی ابتدا یا عید و بقر عید کے بارے میں لوگوں نے غلط تاریخ کو منالیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ ۔ ما سبق حدیث ۔
[۱۱] چاند کے چھوٹے یا بڑے ہونے سے اس کی تاریخ میں فرق نہیں پڑتا : حضرت ابو البختری بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک بار عمرے کے سفر میں تھے جب بطن نخلہ میں ہم نے قیام کیا تو ہلال ماہ نو کو دیکھا جو دیکھنے میں بہت ہی بڑا دکھ رہا تھا ، ہم میں سے کسی نے کہا کہ یہ دو رات کا چاند ہے اور کسی نے کہا کہ یہ تو تین رات کا چاند ہے ، پھر جب ہماری ملاقات حضرت عبد اللہ بن عباس سے ہوئی اور اس کا ذکرکیا تو انہوں نے کہا : وہ چاند اسی رات کا ہے جس رات تم نے دیکھا ہے ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے تمہارے دیکھنے کے لئے اسے بڑا کردیا ہے ۔
{ صحیح مسلم : 1088 } ۔
[۱۲] چانددیکھنے کی دعا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نیا چاند دیکھتے تو یہ دعا پڑھتے : اللَّهُمَّ أَهِلَّهُ عَلَيْنَا بِالْيُمْنِ وَالْإِيمَانِ وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّكَ اللَّهُ
[۱۳] چاند دیکھنے کے لئے جدید آلات جیسے دوربین وغیرہ استعمال کئے جاسکتے ہیں ۔
[۱۴] چاند کی اسی رویت کا اعتبار ہوگا جو سورج ڈوبنے کے بعد دکھائی دے ، اگر چاند سورج ڈوبنے سے قبل دکھائی دیتا ہے اور سورج ڈوبنے کے بعد نہیں دکھائی دیتا تو اس کا اعتبار نہیں ہے ۔
ختم شدہ |