سلسلہ کبائر 18] نوحہ و ماتم ، کمزورں پر ظلم ، پڑوسی کو تنگ کرنا/ حديث نمبر: 315

بسم اللہ الرحمن الرحیم

315:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

سلسلہ کبائر 18]

نوحہ و ماتم ، کمزورں پر ظلم ، پڑوسی کو تنگ کرنا

بتاریخ : 24/ جمادی الاول 1438 ھ، م  21، فروی 2017 م

عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «اجْتَنِبُوا الْكَبَائِرَ، وَسَدِّدُوا، وَأَبْشِرُوا»

( مسند أحمد 3/394 ) سلسلة الأحاديث الصحيحة:885

48- نوحہ و ماتم کرنا : اس سے مراد  کسی  قریب و عزیز کی وفات  پر اس کے  اوصاف بیان کرکےرونا، اپنے منھ پر طمانچے مارنا  ، بین کرنا  ، گریبان پھاڑنا اور بالوں  کو نوچنا  وغیرہ  ہے،  جیسا کہ  زمانہ  جاہلیت  میں یہ عام رواج  تھا،  بلکہ  عموما  اس کے لئے  مرنے والا  وصیت  کرکے  جاتا تھا اور  اس کے لئے  کرایے  پر عورتیں  بھی  بلائی جاتی تھیں  ، لیکن  چونکہ  یہ  اسلام کے عقیدہ  قضا و قدر کے خلاف ہے اس لئے  اس سے سختی سے منع  کیا گیا  ، چنانچہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا :  دو چیزیں  لوگوں   میں ایسی  پائی جاتی  ہیں  جو کفر  ہیں یا کفر   کا باعث ہیں: نسب  میں طعن  کرنا  اور میت  پر بین  کرنا  ۔ {صحیح مسلم  بروایت ابو ہریرہ } ۔

نبی ﷺ  نے نوحہ  وماتم  کرنے والوں سے براءت  کا اظہار کیا ہے  ، چنانچہ  حضرت  ابو موسی اشعری  رضی اللہ عنہ  کا بیان  ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس عورت  سے بیزاری  کا اظہار  فرمایا  ہے جو نوحہ  کرنے  والی ہے ، اور مصیبت  کی وجہ سے  اپنے  بال   منڈوا دینے والی ہے  اور گریبان  چاک کرنے والی ہے ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم } ۔

حتی  کہ نبی  ﷺ عورتوں  سے  جن اہم  امور  پر بیعت  لیتے  تھے ان میں  سے ایک یہ بھی تھا  کہ وہ  نوحہ و ماتم نہ کریں گی ، چنانچہ  حضرت ام عطیہ  فرماتی ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ نے بیعت  لیتے  وقت  ہم سے یہ عہد  لیا کہ ہم  بین نہیں  کریں گی ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم }۔

بلکہ شریعت  کی نظر  میں یہ فعل  اس قدر  قبیح ہے کہ  اگر کسی  ماحول  میں نوحہ  ماتم  کا رواج ہے ، یا کوئی شخص  اپنے اہل و عیال  کی اس کمزوری کو جانتا ہے اوروہ اپنی زندگی  میں انہیں  اس سے نہیں روکتا   اور نہ رکنے کی  وصیت  کرتا ہے تو قیامت  کے دن اسے  عذاب   دیا جائے گا ، حضرت  مغیرہ بن شعبہ  سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا  ہے کہ جس  پر نوحہ  کیا جائے  تو اسے قیامت  کے دن اس پر نوحہ  کئے جانے  کی وجہ سے عذاب دیا جائےگا ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم }۔

یہاں یہ امر واضح  رہے کہ  کسی عزیز و قریب  کی وفات  پر غمگین  ہونے   ،بلاچیخے چلائے رونے اور نوحہ و ماتم کرنے میں فرق ہے  کیونکہ  غمگین ہونا انسان  کی فطرت  میں داخل ہے  اور آنسووں  کے نکل جانے پراسے اختیار  نہیں ہے ، لہذا  شریعت  نے  اس کی اجازت  ہے بلکہ  خود  نبی ﷺ کے عمل سے ثابت  ہے ، حضرت  انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں  کہ  ہم لوگ  نبی ﷺ  کے ساتھ  ابو سیف  لوہار  کے یہاں گئے  جہاں آپ کے بیٹے  ابراہیم  دودھ پی رہے تھے،  اس  وقت ابراہیم کی جانکنی  کا وقت تھا ،  یہ منظر  دیکھ کر  نبی ﷺ کی دونوں  آنکھیں  اشک بار  ہوگئیں ، حضرت  عبد الرحمن  بن عوف نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول آپ  رو رہے ہیں  [ حالانکہ  آپ نے رونے  سے منع فرمایا ہے ] نبی ﷺ نے جواب دیا  : اے عوف  کے بیٹے  یہ رحمت  ہے ، پھر آپ نے فرمایا  :آنکھیں  اشک بار ہیں ، دل غمگین ہے اور ہم تو وہی کہیں  گے جس سے ہمارا  رب راضی ہو ، اے ابراہیم  تمہاری جدائی  پر  ہم یقینا  غمگین  ہیں ۔ {صحیح بخاری  وصحیح مسلم }  ایک حدیث  میں ہے کہ  آپ نے مزید  یہ بھی  فرمایا :رونے سے نہیں بلکہ  ہمیں  دو احمق  اور   فاجر آوازوں  سے روکا  گیا ہے : ۱-  مصیبت  کے وقت  کی  آواز ، چہرہ نوچنے اور گریبان  پھاڑنے سے ۔ ۲- شیطان کی راگ سے ۔ { سنن ترمذی ، بروایت  جابر }۔

49- کمزوروں اور ماتحتوں پر ظلم : اللہ رب العزت  کی یہ حکمت  ہے کہ اس نے تمام لوگوں  کو مال  ، طاقت  اور صلاحیت   وغیرہ میں یکساں پیدا  نہیں کیا  بلکہ  بعض کو بعض  پر فوقیت  دی ہے  ،جس کی ایک بہت  بڑی حکمت یہ ہے  کہ لوگ ایک دوسرے  کے کام  آسکیں  ، چنانچہ  ارشاد باری تعالی ہے :

نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَعِيشَتَهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَرَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِيَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِيًّا وَرَحْمَتُ رَبِّكَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (32)الزخرفدنیا  کی زندگی میں  ان کا سامان  زیست  ان کے درمیان  ہم نے تقسیم   کیا ہے اور کچھ لوگوں  کو دوسروں  پر  بدر  جہا فوقیت  بھی دی ہے  تاکہ  ایک دوسرے  سے خدمت لے سکیں اور آپ  کے پروردگار  کی رحمت  اس چیز سے بہتر ہے  جو یہ جمع کررہے ہیں ۔ لیکن اس خدمت  لینے میں   اس بات کا تاکیدی  حکم دیا ہے  کہ مالدار غریب  پر ، طاقتور  کمزور پر اور صاحب  منصب اپنے  ماتحت  پر ظلم  و زیادتی  سے  کا م نہ لے ، ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (42)الشوریالزام  تو ان لوگوں  پر ہے جو لوگوں  پر ظلم کرتے  اور زمین  میں ناحق  زیادتی  کرتے ہیں  ، ایسے  ہی لوگوں  کے لئے  دردناک عذاب ہے ۔ حضرت  ابومسعو د بدری  رضی اللہ عنہ  کا بیان ہے کہ ایک بار  میں  اپنے  ایک غلام  کو کوڑے  سے  مار رہا تھا  کہ میں نے اپنے  پیچھے  سے ایک آواز  سنی : خبردار اے ابو مسعود  ! مگر غصے کی  حالت  میں ہونے کی وجہ سے  آواز  کو نہیں  سمجھ سکا  ، پس جب  آواز دینے  والا میرے قریب  ہوا  تو دیکھا کہ رسول  اللہ ﷺ ہیں ، آپ نے فرمایا  : خبردار  اے  ابو مسعود  !  اللہ تعالی  تجھ  پر اس  سے کہیں زیادہ  قادر ہے  جتنا تو اس غلام پر ہے ۔ حضرت ابو مسعود کہتے ہیں  کہ آپ کی ہیبت سے کوڑا  میرے ہاتھ سے گرگیا  ، اور میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! یہ اللہ کے لئے آزاد ہے ، نبی ﷺ نے فرمایا  : اگر تو اسے آزاد نہ کرتا تو  آگ تجھے اپنی  لپیٹ  میں لیتی ۔ {صحیح مسلم } ۔ حتی کہ  اگر کسی  کے زیر دست  ایک جانور  ہے اور وہ اس  پر ظلم  کرتا ہے تو  یہ بھی کبیرہ  گناہ ہے  ، جیسا کہ  نبی ﷺ  نے  خبر دی   ہےکہ ایک عورت  صرف اس وجہ سے جہنم  میں گئی  کہ اس نے  ایک بلی کو   باندھ رکھا تھا  یہاں تک  کہ وہ مرگئی   ، نہ اسے آزاد کیا  کہ وہ  کیڑے مکوڑے  کھا  کر اپنا  پیٹ بھرے اور نہ  اسے کھلایا  پلایا ۔ {صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت  ابن عمر } ۔

50- پڑوسی  کو تنگ  کرنا : اسلام  میں  پڑوس  کی بڑی  اہمیت  اورپڑوسی کے ساتھ  حسن سلوک  سے پیش آنا بہت  بڑی نیکی ہے ، نبی ﷺ نے  پڑوسی  کے ساتھ  حسن سلوک  کو ایمان  کا ایک حصہ قرار دیا ہے  ، چنانچہ  ارشاد  فرمایا : جو شخص  اللہ تعالی  اور آخرت  کے دن پر ایمان  رکھتا ہے اسے چاہئے کہ  اپنے پڑوسی  کے ساتھ  حسن سلوک سے پیش  آئے ۔  {صحیح مسلم  بروایت  ابو ہریرہ } ۔ اس کے برخلاف  پڑوسی کے ساتھ  بدسلوکی  کو ایمان   کے منافی  اور جنت  سے دوری کا سبب  قرار دیا  ہے ، ارشاد ہے : اللہ کی  قسم  وہ مومن  نہیں ، اللہ کی قسم  وہ مومن نہیں ، اللہ کی قسم وہ مومن نہیں ، آپ  سے پوچھا گیا کہ  یا رسول اللہ ! وہ کون  بدبخت  ہے؟   آپ نے فرمایا  : جس کا  پڑوسی  اس کے شر سے محفوظ  نہیں ہے  ، مزید  یہ بھی فرمایا :  جس کا پڑوسی  اس کے شر سے محفوظ نہ  رہے  وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم ، بروایت ابو ہریرہ } ۔ بلکہ برابر روزہ  اور مستقل طور پر قیام اللیل  کا اہتمام  کرنا جیسی  عبادتیں  بھی پڑوسی  کے ساتھ بدسلوکی  کا کفارہ نہیں بن سکتی ۔

چنانچہ  نبی ﷺ سے ایک  ایسی عورت  کا ذکر  کیا گیا  جو بہت  زیادہ  نوافل  جیسے  نماز ، روزہ  اور صدقہ  و خیرات  کا اہتمام  کرتی ہے  لیکن  اپنے پڑوسی  کو اپنی زبان  سے تنگ  کرتی ہے، تو آپ  نے فرمایا : وہ جہنم  میں جائیں گی  ۔ الحدیث  {مسند احمد  و صحیح ابن حبان  بروایت  ابو ہریرہ } ۔

پڑوسی  کی اسی  اہمیت  کے پیش نظر  اللہ تعالی  قیامت  کے دن  سب سے پہلے  دو پڑوسیوں  کے جھگڑے  کا فیصلہ کرے گا ، ارشاد نبوی ہے  : قیامت  کے دن دو جھگڑنے  والے  جنکا فیصلہ  سب سے پہلے  ہوگا  وہ  دو پڑوسی ہوں گے ۔ { مسند احمد بروایت عقبہ }