شعبان اورمغفرتی ہوائیں/حديث نمبر :218

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :218

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :28/29/ رجب 1433 ھ، م 19/18،جون 2012م

شعبان اورمغفرتی ہوائیں

عن معاذ بن جبل عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : ” يطلع الله إلى خلقه في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن” .

(صحيح ابن حبان5636و8/193،الطبراني الكبير20/108.109،الطبراني الأوسط7/397.)

ترجمہ : حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ماہ شعبان کی پندرہویں شب کو اللہ تبارک و تعالی اپنی مخلوق کی طرف نظر کرتا ہے تو اپنی تمام مخلوقات کو بخش دیتا ہے سوائے شرک کرنے والے اور کینہ رکھنے والے کے ۔

{ صحیح ابن حبان ، طبرانی کبیر و طبرانی اوسط } ۔

تشریح : بڑے ہی بدنصیب ہیں وہ لوگس جنہیں خیر و برکت والے دنوں اور مہینوں میں اپنے رب کی خیر و برکت سے کوئی حصہ نہیں ملتا اوربڑے ہی محروم ہوں وہ لوگ جو مغفرت و رحمت والے دنوں اور مہینوں میں بھی اپنے رب کی رحمت و مغفرت سے محروم رہتے ہیں ۔

بھائیو! شعبان کا مہینہ اللہ تعالی کی رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے جس میں اللہ تعالی اپنے تمام بندوں پر خصوصی رحمت فرماتا ہے ، ان کی غلطیوں سے در گزر فرماتا ہے ، ان کے گناہوں کو بخش دیتا ہے اور ان کی کوتاہیوں سے صرف نظر کرتا ہے ۔ اس مبار ک ماہ میں رب رحیم و کریم کے رحم و کرم کی خصوصی ہوائیں چلتی ہیں جو ہر ان مسلمان بندوں پر پڑی ظلم و معصیت کی اس دھول کو اڑا لے جاتی ہیں جو ان ہواوں کے درپے ہوتے ہیں ، اب اگر کوئی بندہ ان ہواوں کے درپے نہیں ہوتا اور بعض ایسے گناہوں کی دبیز چادر اوڑھ لیتا ہے جس کی وجہ سے رحمت الہی کی یہ ہوائیں اس تک نہ پہنچ سکیں تو اس سے بڑا بدنصیب کون شخص ہوسکتا ہے ۔ زیر بحث حدیث میں ایسے ہی دو قسم کے لوگوں کا ذکر ہے جو اس مبارک ماہ میں بھی اللہ تعالی کی رحمتوں سے محروم رہتے اور رحمت کی ہواوں کے درپے ہونے کے بجائے اپنے آپ کو اس سے چھپاتے ہیں اور دور رکھتے ہیں ۔

[۱] مشرک : یعنی شرک کرنے والا : شرک کا معنی ہے کسی بھی ذات کو اللہ تبارک و تعالی کا مثیل و شبیہ اور نظیر قرار دینا ، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : جس ذات نے تجھے پیدا کیا ہے تو کسی اور کو اس کا شبیہ و مثیل ٹھہرائے ۔ { صحیح بخاری و صحیح مسلم بروایت ابن مسعود } شبیہ و مثیل کا معنی یہ ہے کہ جو کام اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں جیسے پیدا کرنا ، دونوں عالم کا نظام چلانا ، مارنا ، جلانا ، روزی دینا ، بیٹا دینا ، دشمنوں پر مدد کرنا ، مرادیں پوری کرنا اور بگڑی بنانا وغیرہ، ان تمام کاموں اور اس طرح کے دیگر کاموں کو انجام دینے والا اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو سمجھا جائے ، اسی طرح بندوں کے جو کام خاص اللہ تعالی کے لئے ہونے چاہئے جیسے :عبادت کی تمام شکلیں خواہ ان کا تعلق دل سے ہو جیسے محبت ، خوف ، توکل ، امید اور نیت و ارادہ وغیرہ ، یا وہ عبادتیں زبان سے متعلقہ ہوں جیسے دعا کرنا ، فریاد کرنا ، پناہ طلب کرنا اور ذکر و اذکار وغیرہ ، یا وہ عبادتیں مال سے متعلقہ ہوں جیسے جانور ذبح کرنا ، نذر و نیاز ، چڑھاوا وغیرہ اور خواہ وہ عبادتیں بدن انسانی سے متعلقہ ہوں جیسے روزہ ، نماز ، رکوع و سجدہ اور طواف وغیرہ ، مذکورہ تمام کام اللہ تعالی کے لئے خاص ہیں ، اب اگر کسی بھی ذات یا چیز کے لئے یہ چیزیں ادا کی گئیں تو گویا انہیں اللہ تعالی کے مشابہ قرار دیا گیا ۔

اسی طرح وہ صفات جو اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہیں ان میں کسی مجبور بندے کو اللہ تعالی کے مثیل ٹھہرایا جائے جیسے ہر چھوٹی بڑی ، غائب و حاضر اور دورو نزدیک چیز کا علم ، ہرچیز پر قدرت و ملکیت ، ہر دور و نزدیک ، ظاہر و پوشیدہ چیز کا دیکھنا، ہر قریب و بعید ، آہستہ اور زور دار آواز کا سننا ، دلوں کے اسرار وخیالات کا جاننا وغیرہ وہ تمام صفتیں جو صرف اللہ تعالی کی ہیں ان صفات کو کسی اور ذات کے اندر ماننا گویا اس ذات کو اللہ تعالی کا شبیہ و مثیل قرار دینا ہے جو عین شرک ہے ، خلاصہ یہ کہ اللہ تعالی کی ذات وصفات اور اس کے حقوق و کام میں کسی اور کو حصہ دینا شرک ہے اور جو شخص بھی اس میں ملوث ہے وہ اس مبارک مہینہ میں رحمت و مغفرت الہی سے دور اور محروم ہے ، بلکہ شرک تو ایسا گناہ ہے جو کبھی معاف نہ ہوگا ، لہذا اس مبارک ماہ کی آمد ہر مسلمان بندے یہ مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ اپنا محاسبہ کرے ۔

[۲] بغض ،کینہ پرور : کینہ پرور سے وہ شخص مراد ہے جس کے دل میں اپنے مسلمان بھائی کے خلاف بغض ہے ، اس کا دل اپنے مسلمان بھائی کی طرف سے صاف نہیں ہے ، حالانکہ اس دشمنی کی کوئی معقول اور شرعی وجہ نہیں ہے ، محض نفسیانیت یا دنیا کی معمولی چیز کی وجہ سے اس سے ناراض ہے ۔ ایسا شخص بھی اس مبارک ماہ میں رحمت و مغفرت الہی سے محروم ہے ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے تمام مخلوق اللہ تعالی کے عیال کے مانند ہے اور کسی بھی شخص کو یہ پسند نہ ہوگا کہ کوئی اس کے اہل و عیال سے دشمنی کرے اور ان سے بغض رکھے ،تو پھر اللہ تعالی اپنی عیال کے لئے اسے کیسے پسند کرسکتا ہے اور اس ناپسند یدگی کا اس دنیا میں مظہر یہ ہے کہ مبارک دنوں اور اوقات میں اللہ تعالی ایسے شخص سے اپنی رحمت کو روک لیتا ہے ۔

اسکی دوسری وجہ یہ ہے کہ جب بندہ کسی کا کینہ اپنے دل میں رکھتا ہے تو اس کے خلاف حسد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے پھر وہی حسد نفرت میں بدل جاتا ہے اور جب کسی کے خلاف حسد ونفرت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اسے لوگوں میں بے وزن کرنے کے لئے اس کی غیبت و چغلی کرنا شروع کردیتا ہے اور یہی غیبت و چغلی باہمی نزاع اور ایک دوسرے کو مالی و جسمانی ضرر کا سبب بن جاتی ہے ، اور ایک دوسرے کے خلافات اتہامات و کذب بیانی کا بازار گرم ہوجاتا ہے ۔

بعض علمائے تابعین کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں کینہ پرور سے مراد وہ بدعتی ہے جوا یک بدعت نکال کر مسلمانوں سے علاحدہ ہوجاتا ہے ۔

فوائد :

۱- شرک کیا ہے ، اس کے مداخل کیا ہیں، اس سے کیسے بچا جاسکتا ہے ، اس کی معرفت کی اشد ضرورت ہے ۔

۲- دل کی صفائی بہت اہم عمل ہے ،کیونکہ جس کا دل صاف نہیں وہ مبارک اوقات و ایام میں بھی رحمت الہی سے محروم ہے ۔

3- شعبان کے مبارک مہینہ میں بدعتی کی مغفرت نہیں ہے،پھر تو وہ لوگ جو اس مبارک مہینہ کی مناسبت سے بدعتیں ایجاد کئے ہوئے ہیں ان کی بدبختی سے اللہ کی پناہ ۔

ختم شدہ