ضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمرہ/حديث نمبر :228

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :228

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی حفظہ اللہ

بتاریخ :15/16/ ذو القعدہ 1433 ھ، م 02/01،اکٹوبر 2012م

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا عمرہ

عن عَائِشَةَ تَقُولُ خَرَجْنَا لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ فَلَمَّا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي قَالَ مَا لَكِ أَنُفِسْتِ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ.

صحيح البخاري:294 الحيض، صحيح مسلم:1211 الحج.

ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج ہی کی غرض سے نکلے تھے چنانچہ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض کا خون آگیا ، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے تو مجھے روتے ہوئے پایا ، پوچھا کیا تجھے حیض آگیا ہے ؟ ہم نے جواب دیا : جی ہاں ، آپ نے فرمایا : یہ ایسی چیز ہے جو آدم کی تمام بیٹیوں پر مقدر ہے، لہذا [ اس سے پریشان نہ ہو اور ] ہر وہ کام کرو جو حاجی کرتے ہیں البتہ پاک ہونے سے قبل بیت اللہ کا طواف نہ کرنا ۔

{ صحیح بخاری ، صحیح مسلم } ۔

تشریح : سن 10 ھ حجۃ الوداع کے موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ایک جم غفیر کے ساتھ حج کے لئے نکلے ، آپ کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات بھی تھیں ، ازواج مطہرات نے حج تمتع کا احرام باندھ رکھا تھا یعنی مکہ پہنچ کر عمرہ کرکے انہیں حلال ہوجانا چاہئے تھا ، اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو مکہ مکرمہ ہی سے حج کا احرام باندھ کر منی جانا تھا ، لیکن ہوا یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب مقام سرف [ مکہ مکرمہ سے 12 کیلو میٹر پہلے ] پہنچیں تو انہیں وہ فطری خون آگیا جس سے کسی بھی عورت کو چھٹکارا نہیں ہے لیکن چونکہ یہ حالت بہت سے اعمال عبادت میں رکاوٹ بنتی ہے لہذا وہ رونے لگیں ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ معاملہ تمہارے ہی ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ آدم کی ہر بیٹی کو اس سے سابقہ پڑتا ہے ،لہذا پریشان نہ ہو اوربیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے سارے ارکان ادا کرو، چنانچہ تمام مسلمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت و امارت میں مکہ مکرمہ داخل ہوئے ، بیت اللہ کا طواف کیا ، صفا اور مروہ کی سعی کی اور جن جن کے ساتھ ہدی کا جانور نہ تھا وہ اپنے بالوں کو کٹا کر حلال ہوگئے اور پھر آٹھویں ذی الحجہ کو اپنی جائے قیام ہی سے حج کا احرام باندھا اورمنی کے لئے روانہ ہوئے ، لیکن چونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج تمتع کو احرام باند رکھا تھا اور ماہواری کا خون آنے کی وجہ سے ابھی تک عمرہ نہ کرسکی تھیں لہذا وہ رونے لگیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی صورت کا ذکر کیا ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تسلی دی اور فرمایا کہ اپنے بالوں کو کھولو ، نہاو اور احرام کی تجدید کرلویعنی عمرے کے ساتھ حج کا بھی احرام باندھ لو، یا یہ کہئے کہ اپنے عمرے کے احرام کو حج قران کے احرام میں بدل کر منی کے لئے چلو اور وہ سارے کام تم بھی کرو جو حاجی کرتے ہیں ، حضرت عائشہ نے ایسا ہی کیا ، پھر جب عرفہ یا مزدلفہ کا دن تھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پاک ہوئیں اور یوم النحر کو بیت اللہ کا طواف کیا ، سعی کی اور اپنا حج و عمرہ مکمل کرلیا، کیونکہ حج قران میں ایک ہی طواف اور ایک ہی سعی حج و عمرہ دونوں کے لئے کافی ہے ، اس میں الگ سے عمرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

پھر جب ایام تشریق کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابطح یا محصب میں قیام فرمائے اور ارادہ ہوا کہ طواف وداع کے بعد مدینہ منورہ کے لئے رخصت ہوں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول : لوگ تو ڈبل اجر لیکر واپس جارہے ہیں لیکن میں ایک ہی اجر حاصل کرسکی ہوں ، لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کیا ہے اور میں نے صرف حج کیا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جتنا اجر لوگوں کو ملا ہے اتنا تمہیں بھی ملے گا [ اس لئے کہ تمہارا حج تمتع قران میں بدل گیا اور تم نے بھی حج و عمرہ دونوں کیا ہے ] لیکن حضرت عائشہ کہنے لگیں کہ میرے دل میں یہ خلش باقی ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف اس وقت کیا جب حج کیا [ اور مکہ مکرمہ آنے پر حج سے پہلے عمرہ کے لئے بیت اللہ کا طواف نہ کرسکی ] چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہی نرم خو تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو بھی خواہش کرتیں اسے پورا کرتے تھے، لہذا آپ نے ان کے بھائی عبدا لرحمن بن ابی بکررضی اللہ عنہماسے کہا کہ اپنی بہن کو لے جاو اور تنعیم سے [ احرام باندھوا کر ] عمرہ کرادو ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے میں نے جا کر عمرہ کیا ، جس میں بیت اللہ کا طواف کیا ، صفا اور مروہ کی سعی کی پھر سحر کے وقت آپ کے پا س پہنچی ،آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا : کیا عمرے سے فارغ ہوکر آگئی ؟ میں نے کہا : جی ہاں، آپ نے فرمایا یہ عمرہ تمہارے اس عمرے کے بدلے ہے ۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمرہ کرنے کا یہ اصل قصہ ہے جس سے متعلق چند امور قابل توجہ ہیں :

۱- ایک ہی سفر میں بار بار عمرہ کرنا کوئی ایسا عمل خیر نہیں ہے کہ ا س کا اہتمام کیا جائے ۔

۲- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دوبارہ عمرہ کی اجازت دینے کی دو اہم وجہ تھی ۔

اول : چونکہ حضرت عائشہ حج تمتع کا عمرہ نہ کرسکی تھیں ۔

ثانیا : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی دلجوئی مقصود تھی ،حالانکہ اس عمرے کی ضرورت نہ تھی ، لہذا جس شخص کی حالت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی جو اسے دوبارہ عمرہ کرنے کی اجازت ضرور ہے ، البتہ سنت و مستحب نہیں ہے ۔

۳- عمرے کا احرام باندھنے کے لئے تنعیم [ جہاں آج مسجد عائشہ قائم ہے ] کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ، لیکن چونکہ مکہ مکرمہ یعنی حدود حرم میں مقیم شخص کو عمرہ کرنے والے کے لئے حدود حرم سے باہر جانا ضروری ہے اور جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیام پذیر تھے وہاں سے تنعیم جو حدود حرم سے باہر ہے سب سے قریب جگہ تھی اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو وہاں سے احرام باندھنے کا حکم دیا تھا ۔

۴- یہ بات بھی قابل غور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی سفر خود دوبارہ عمرہ نہیں کیا اور نہ ہی حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے عمرہ کیا جو حضرت عائشہ کے ساتھ ساتھ تھے ، یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ حج کے بعد یا ایک بار عمرہ کر لینے کے بعد اسی سفر میں دوبارہ عمرہ کرنا سنت نہیں ہے ۔

فوائد :

۱- تمتع کا احرام باندھنے والا حاجی اگر یوم الترویہ سے قبل کسی مجبوری کے سبب عمرہ نہ کرسکے تو اسے حج قران کا احرام باندھ لینا چاہئے ۔

۲- اہل مکہ یا مکہ میں مقیم لوگ اگر عمرہ کرنا چاہتے ہیں تو احرام باندھنے کیلئے انہیں حدود حرم سے کسی بھی سمت نکلنا چاہئے مسجد کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔

3- ایک سفرمیں یا مکہ مکرمہ میں مختصر قیام کے دوران بار بار عمرہ کرناخلاف سنت ہے اور اس کے لئے مسجد کو خاص سمجھنا اور بھی برا ہے۔

ختم شدہ