قرآن بھی عجیب چیز ہے

بسم اللہ الرحمن الرحیم

قرآن بھی عجیب چیز ہے

قسط :2/1

ازقلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا

وصلی اللہ علی نبینا محمد النبی الامی الذی قال اللہ عنہ” يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ “وعلی آلہ واصحابہ وسلم تسلیما کثیرا ۔

اما بعد :

قرآن مجید اللہ ذو الجلال کی کتاب اور اسکا مبارک کلام ہے ، اللہ کی رسی اور وہ صراط مستقیم ہے کہ جو اسے تھامے رہا اور اس پر چلتا رہا وہ کامیاب و کامران اور جسنے اسے چھوڑا دیا وہ ہلاک وبرباد ہوا ، قرآن مجید دنیا کے تمام جن و انس کیلئے رہنمائے ہدایت اور کیمائے سعادت ہے ، یہی وہ کتاب الہی ہے جو بعینہ اسی شکل میں موجود ہے جس شکل میں آج سے چودہ سو سال پہلئے رب ذو الجلا ل کی طرف سے نازل ہوئی تھی ، یہی وہ کتاب الہی ہے جسکے نازل کرنے والے نے خود ہی اسکی حفاظت کا ذمہ لیا ہے یہ وہ کتاب ہے کہ دنیا کا کوئی ادیب بھی اسے چیلنج نہیں کرسکتا ، ارشاد باری تعالی ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ {الحجر :9 } یقینا ہم نے ہی الذکر {قرآن }کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اسکے محافظ ہیں ، نیز فرمایا: قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا {الاسراء :88} کہہ دیجئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اسکے مثل لانا ناممکن ہے گو وہ آپس میں ایک دوسرے کے مدد گار بھی بن جائیں۔

یہ وہ مبارک کتاب ہے کہ جس نے دنیا کے ادیبوں اور قادرالکلام لبیبوں کو حیرت میں ڈال رکھا ہے بلکہ جنوں نے بھی اس کتاب کی چند آیتیں سنیں تو بر جستہ یہ کہہ اٹھے : إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا – يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ {الجن 2،1}

ترجمہ تاریخ انسانیت شاھد اور حالات گواہ ہیں کہ یہ مبارک کتاب محفوظ ہے اور بحثیت مسلمان کے ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ یہ قرآن آئندہ بھی محفوظ رہے گا نہ ہی کوئی ظالم اسے بدل سکتا ہے ، نہ ہی کسی باطل پرست کے تحریف کے ہاتھ اس تک پہنچ سکتے ہیں اور نہ ہی اس مبارک کتاب کے چیلنج کو کوئی قبول کرسکتا ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ اس مبارک کتاب کی حفاظت اب تک کیسے ہوتی رہیاور آئندہ کسطرح ہوتی رہے گی ؟ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کی حفاظت کرنے والا اللہ تعالی ہی ہے ، لیکن کیا اللہ تعالی کی حفاظت کا یہ معنی ہے کہ وہ خود اس دنیا میں آکر دشمنوں سے اس کتاب کی حفاظت کریگا ، یا اسکی حفاظت کیلئے غیب سے کسی مخلوق کو پیدا فرمائی گا ؟ یا آسمان سے فرشتوں کی صف درصف جماعت کو نازل کر کے اس کتاب کی حفاظت انھیں سونپے گا ؟ ہر مسلمان کا جواب یہی ہوگا : نہیں ہر گز نہیں ، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس کتاب عزیز کی حفاظت انھی لوگوں سے لیا اور لیتا رہے گا جو اس پر ایمان لاتے ہیں اور اسکی حقانیت کا اقرارکرتے ہیں ۔

عزیزان گرامی ‘ یہ کتاب عزیز کسطرح سے محفوظ رہی ہے ، اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کتاب کی حفاظت کے چار ذریعے رکھے ہیں ، اگلے اور پچھلے مسلمانوں نے انھی ذرائع کا استعمال کر کے اس مبارک کتاب کی حفاظت کی ہے ۔

{1} قرآن کا حفظ کرنا :

قرآن مجید کی حفاظت کا پہلا ذریعہ یہ رہا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلمپر جب یہ قرآن نازل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فورا اسے یاد کرلیتے ، صحابہ کرام کو یاد کراتے ، حفظ قرآن کی فضیلت بیان فرماتے اور اپنے حفظ کے حفاظت کی تاکید فرماتے ، اس قرآن کے نزول کے وقت اسے جلد از جلد یاد لینے سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا کیفیت ہوتی تھی اسکا ذکر قرآن مجید میں ایک سے زائد بار آیا ہے ، ایک جگہ ارشاد باری تعالی ہے : لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ – إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ – فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ {القیامۃ :18،17،16،} آپ قرآن کو جلد یاد کرلینے کے لئے زبان کو حرکت نہ دیں اسکا جمع کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے پڑھنا ہمارے ذمے ہےاسلئے جب ہم اسے پڑھ لیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اسکے پڑھنے کی پیر وی کریں ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن لکھنے کے مقابلہ میں حفظ کرانے پر زیادہ زور دیا کیونکہ حفظ کیلئے پڑھے لکھے ہونے کی شرط نہیں ہے ، نیز اگر دیکھا جائے تو خود قرآن مجید میں اس کتاب عزیز کی ایک خوبی یانشان امتیاز یہ بیان کیا ہو ا ہے کہ یہ لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے : بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ {العنکبوت :49}

بلکہ یہ قرآن تو روشن روشن آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں ۔

گویا قرآن مجید کی تحریف وتبدیل سے محفوظ رہنے کی ایک شکل یہ ہے کہ وہ لفظ بلفظ حافظوں کے سینوں میں محفوظ ہے جہاں تک کسی ظالم کا دست خورد برد نہیں پہنچ سکتا ، درج ذیل حدیث قدسی میں اللہ تبارکوتعالی کا ارشارہ شاید اسی طرف ہے : وَأَنْزَلْتُ عَلَيْكَ كِتَابًا لاَ يَغْسِلُهُ الْمَاءُ تَقْرَؤُهُ نَائِمًا وَيَقْظَانَ {صحیح مسلم :2865 صفۃ الجنۃ ، مسند احمد ج4ص162 بروایت عیاض بن حمار} اور ہم نے آپ پر ایک کتاب اتاری ہے جسے پانے نہ دھو سکے اور آپ اسے سوتے جاگتے پڑھتے رہیں گے ” یعنی چونکہ وہ حافظوں کے سینے میں محفوظ رہے گی اور صرف کتابی شکل میں نہ ہوگی کہ اسے پانی سے دھو دیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے ۔

یہی وجہ ہے کہ پرانی کتا بوں میں اس امت کی ایک خوبی یہ بیان ہوئی ہے کہ اس کا انجیل {قرآن }اسکے سینوں میں ہوگا ، تفسیر ابن کثیر ۔

ماضی قریب وبعید میں بہت سے ملحد اور طاغوتوں نے قرآن کو مسلمانوں کی زندگی سے دور کرناچاہا ہے لیکن تاریخ شاھد ہے کہ وہ اسمیں کامیاب نہیں ہے ، درجہ ذیل واقعہ اسکا ثبوت ہے ۔

جمیعیت تحفیظ قرآن دبی کے نائب صدر ڈاکٹر سعید بن محارب حفظہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میری اس جمعیت کے زیر اہتمام قائم کردہ حفظ قرآن کے ایک مقابلے میں سابقہ سویت یونین کا رہنے والا ایک بارہ سالہ لڑکا کامیاب ہو ا، اسکے حفظ کی پختگی حیرت انگیز تھی ، ہم لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تم نے قرآن کو کیسے حفظ کیا ، اور اسقدر پختگی اور عمدگی کے ساتھ تمھیں کس نے یاد کرایا ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے والد نے پڑھایا اور یاد کرایا ہے ، ہم نے پھر پوچھا کہ تمھارے والد کا استاذ کون تھا جس انہیں تجوید و حفظ کی ایسی عمدہ تعلیم دی ؟ بچے کا جواب تھا :میرے دادا نے ، اس جواب پر ہمیں بڑا تعجب ہوا اور ہم نے آگے پوچھا کہ بے دین اور ملحد دور حکومت جسمیں ہر اس مسلمان کی سزا فوری قتل تھا جو اپنے دین سے معمولی تعلق بھی رکھتا ہو، پھر ایسے سنگین حالات میں تمھارے دادا کیلئے کیسے ممکن ہوا کہ تمھارے باپ کو قرآن کے حفظ وتجوید کی تعلیم دے سکیں ؟ اس نے جواب دیا کہ میرے والد نے بتایا کہ وہ ابھی چھوٹے بچے ہی تھے کہ انکے والد یعنی میرے دادا انھیں ایک گدھے پر بیٹھا کر آبادی سے باہر کہیں دور لے جاتے اور وہاں انکی آنکھوں پر پٹی باندھکر گدھے کو ہانکتے ہوئے ایک پہاڑ کے غار یا سرنگ میں داخل کرتے جو انھیں ایک کشادہ جگہ پہنچادیتی ، وہاں پہنچ کر میرے والد کے آنکھوں کی پٹیاں کھول دی جاتیں پھر کسی پوشیدہ جکہ سے میرے دادا کچھ تختیاں نکالتے جس پر قرآن لکھا ہوتا پھر اس سے جوکچھ میسر آتا میرے والد کو قرآن یاد کراتے پھر واپسی کے وقت دوبارہ میرے والد کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر پہلی جگہ پر واپس لاتے اور انکی پٹیاں کھودی جاتیں ، یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا جب تک میرے والد نے قرآن کو اچھی طرح یاد نہ کرلیا ۔

ہم نے اس بچے سے بڑے تعجب سے پوچھا کہ تمھارے دادا تمھارے والد کی آنکھوں پر پٹیاں کس لئے باندھ دیتے تھے ؟ بچے نے جواب دیا کہ یہی سوال ہم نے بھی اپنے والد سے کیا تھا ، پوچھنے پر والد صاحب نے بتلایا کہ انکے والد کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ خدانخواستہ اگر میرے والد کو قرآن پڑھنے کے جرم میں گرفتار بھی کرلیا جاتااور انھیں سزائیں دی جاتیں تو وہ اس جگہ کا پتہ نہ بتاسکیں ، کیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں بہت سے مسلمان اسی طرح اپنے بچوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے ۔ {جریدۃ الجزیرہ عدد:13767بتاریخ 25/6/1431ھ موافق 8/6/2010ء بروز سہ شنبہ }

قرآن مجید کی کتابت : قرآن مجید کی حفاظت کا دوسرا ذریعہ اسکی کتابت وطباعت ہے ، کیونکہ بسااوقات انسان کا حافظہ خطا کرجاتا ہے تو اسکے لئے کتاب کی طرف رجوع کی ضرورت پڑتی ہے ،اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حفظ پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ابتدائے نزول ہی سے کتابت قرآن کا بھی خصوصی اہتمام فرمایا ،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس  بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ بعض کا تبین وحی کو بلاتے اور حکم دیتے کہ اس آیت کو فلاں سورت میں رکھو جہاں فلاں چیز کا بیان ہے {سنن ابو داود :786 الصلاۃ ، سنن الترمذی :3086 التفسیر }

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پورا قرآن لکھا جا چکا تھا بلکہ بہت سے صحابہ نے اپنے لئے الگ الگ مصحف لکھ رکھے تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی سورتوں وغیرہ کے ترتیب کی کوئی آخری شکل نہیں دی تھی اسی لئے جب یمامہ کی لڑائی میں بہت سے وہ صحابہ شھید ہو گئے جو پورے قرآن کے حافظ تھے تو حضرت عمر  نے حضرت ابوبکر  کو مشورہ دیا کہ قرآن مجید کے ان منتشر اوراق کو ایک کتابی اور آخری شکل دے دی جائے تاکہ یہ ضائع ہونے سے محفوظ رہ جائے ، چنانچہ کافی پس وپیش کے بعد حضرت ابو بکر صدیق  حضرت زید بن ثابت اور چند دوسرے صحابہ کو اس مہم میں لگا یا اور انہوں نے بڑی تحقیق وجستجو کے بعد قرآن مجید کو وہ شکل دی جو آج ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے ، حدیثوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی ترتیب پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کو تقریبا اسی ترتیب سے پڑھتے تھے جو آج اس مصحف میں موجود ہے ۔

عصر نبوی کے بعد مسلمانوں میں قرآن مجید کی کتابت کا اہتمام بڑھتا ہی گیا حتی کہ آج صورت حال یہاتک پہنچ چکی ہے کہ بازار میں مختلف قسم کے چھوٹے بڑے ، قسم قسم کے چھپے ہوئے قرآن مجید کے نسخے دستیاب ہیں اور آج شاید ہی کوئی ایسا مسلمان گھر ہو جسمیں قرآن مجید کے دوچار نسخے نہ پائے جائیں بلکہ بعض گھروں میں تو قرآن مجید کے درزنوں نسخے موجود ہونگے ۔

اللہ تعالی کی لاکھ لاکھ رحمتیں نازل ہوں خادم الحرمین ملک فہد رحمہ اللہ پر کہ مدینہ منورہ میں انکا قائم کردہ قرآن کمپلکس قرآن کی طباعت کا دنیا میں سب سے بڑا مرکز ہے وہاں سے آربہا ارب نسخوں کی تعداد میں اچھے سے اچھے کاغذ پر قرآن مجید چھپ کر پوری دنیا میں پہنچ رہا ہے ، صرف قرآن مجید کی بات نہیں ہے بلکہ اس سے متعلق مختلف موضوع کی کتابوں پر بھی کام چل رہا ہے اور چالیس سے زائد زبانوں میں قرآن مجید کے معانی کا ترجمہ کڑوروں کی تعداد میں چھپ کر مختلف ملکوں میں پہنچ چکا ہے اور مزید دیگر زبانوں میں طباعت کاکام جاری ہے ، بلاشبہ قرآن مجید کی طباعت کا یہ ایسا کام ہے جسکی مثال دنیا کی تاریخ میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی قرآن مجید کے علاوہ کسی اور کتاب کو یہ امتیاز حاصل ہے ۔

جسکی مثال دنیا کی تاریخ میں موجود نہیں ہے اور نہ ہی قرآن مجید کے علاوہ کسی اور کتاب کو یہ امتیاز حاصل ہے ۔

قرآن مجید کی تعلیم خاصکر اسکے معانی کی وضاحت :

قرآن مجید کی تعلیم و تعلم بھی حفاظت قرآن مجید کا ایک بڑا ذریعہ ہے ، تعلیم وتعلم کے دو پہلو ہیں {1} ایک قرآن مجید کے حروف وکلمات کی تعلیم جسے ہماری اصطلاح میں ناظرہ تعلیم کہا جاتا ہے {2}اسکے معانی و مفہوم کی تعلیم اور اسی ضمن میں ہم قرآن کے علوم سے متعلق تالیف کو بھی لے سکتے ہیں ۔

نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ابدائے نزول ہی سے ان دونو ں کا م کا خصوصی اہتمام فرمایا ہے ،بلکہ اللہ تعالی نے قرآن کے الفاظ اور اسکے معنی ومفہوم کی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب رسالت کا ایک حصہ قراردیا ہے :

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ {الجمعہ:2}وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انھیں اسکی آیتیں پڑ ھکر سناتا ہے ، اور انکو پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ، یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔

اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تین منصب کا ذکر ہے ، [1]قرآن کریم کی آیات کو تلاوت کرکے سنانا تاکہ لوگ اسے یاد کرلیں ، [2]اس کتاب کے مفہوم کی وضاحت تاکہ اس پر عمل کرسکیں ،[3]اس کتاب کے عمل پر تربیت اور اسکے مخالفت سے بچانا ۔

اسی چیز کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ {صحیح البخاری :5027،فضائل القرآن ،بروایت عثمان}تم میں کا سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن کو سیکھے اور سکھائے ،

حضرت عقبہ بن عامر  بیان کرتے ہیں کہ ہملوگ صفہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا :تم میں سے کسکو یہ پسند ہے کہ وہ وادی بطحان یا وادی عقیق جائے اور وہاں سے دو بڑے کوہاں والی اونٹنیاں لائے ،جن کے حصول میں نہ گناہ کا دخل ہو اور نہ ہی قطع رحمی کا ؟ ہم میں سے ہر ایک نے کہا کہ اے اللہ کے رسول : یہ تو ہم میں سے ہر ایک کو پسند ہے ، آپ نے فرمایا :پھر تم میں سے کوئی مسجد جاکر قرآن مجید کی دویا تین آیتیں کیوں نہیں پڑھ پڑھا لیتا جو اسکیلئے ایک یا دو اونٹنیوں سے بہتر ہے ، تین یا چار آیتوں کا سیکھنا سکھانا تین اور چار اونٹنیوں سے بہتر ہے ، اسی طرح جتنی آیتیں سیکھی جائیں گی وہ اسی قدر اونٹنیوں سے بہتر ہونگی ۔{صحیح مسلم :803}

تاریخ کے اوراق شاھد ہیں کہ صحابہ وتابعین سے لیکر آج تک مسلمانوں نے قرآن کی تعلیم وتعلم پر خصوصی توجہ دی ہے حضرت عثمان اور حضرت علی جیسے صحابہ کے تربیت یافتہ حضرت ابو عبد الرحمن السلمی رحمہ اللہ ہیں انہوں نے بھی حضرت عثمان  سے قرآن مجید کے تعلیم وتعلم سے متعلق وہ حدیث روایت کی ہے جسکا ذکر ابھی اوپر ہوا ، اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ اسی حدیث ہی نے مجھے اس جگہ بیٹھا یا ہے ، حافظ ابن حجر بیان کرتے ہیں کہ وہ عہد عثمان سے لیکر حجاج بن یوسف کے دورامارت تک اسی جگہ بیٹھ کر قرآن مجید کا درس دیتے رہے ، حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں کہ خلافت عثمان کی ابتدا اور امارت حجاج بن یوسف کی انتہا کے درمیان 72 سال کا فاصلہ ہے ۔ اور خلافت عثمان کی انتہا اور امارت حجاج کی ابتدا کے درمیان 38 سال کا فاصلہ ہے ، اب یہ تو نہیں معلوم ہوسکا کہ حضرت ابو عبد الرحمن السلمی نے ا پنے درس قرآن کی ابتدا کب سے کی ہے ۔{فتح الباری 9 ص76}

بڑے تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بڑے سے بڑے ملحد اور ظالم حاکم کا ظلم وجبر بھی مسلمانوں کو اس کام سے نہیں روک سکا ، جسکی سب سے واضح دلیل روس کی ملحد حکومت اور اسکا ظلم ہے ، چنانچہ وہاں کے کسی صوبے کا رہنے والاایک نوجوان جو ایک کھاتے پیتے کھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، کھانے پینے اور رہنےسہنے کی ہر سہولت اسےمیسر تھی ،گھر میں تمامرہائشی ضروریات کے ساتھ ایک کمرہ اسکے لئے خاص تھا ، جو سوویت یونین میں اس وقت کم ہی لوگوں کو میسر آتاتھا ، لیکن قرآن حکیم کا یہ معجزہ دیکھئے کہ اس نوجوان نے جب پوشیدہ طور پر قرآن پڑھ لیا تو اسکے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس کتاب کو دوسروں تک بھی پہنچا نا چاہئے ، اور ظاہر بات ہے کہ آبادی میں رہکر اس وقت یہ کام ممکن نہ تھا ، لہذا اس نے اس کام کیلئے بکریاں چرانے کا پیشہ اختیار کیا تاکہ حکومت اور اسکے جاسو سوںسے دور رہ کر اپنے علاقے کے بچوں کو قرآن سکھلا سکے ، اس طرح وہ جوان سالوں سال تک بھوک ، پیاس اور سردی ودھوپ برداشت کرتا رہا اور آبادی سے دور رہکر بہت سارے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتا رہا ، یہاں تک کہ اس علاقے کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسکے ذریعے قرآن اور حفظ کی تعلیم حاصل کی ۔{جریدۃ الجزیرہ عدد 13767 بتاریخ 25/6/ 1 14ھ }

ناظرہ تعلیم کے ساتھ مسلمانوں نے قرآن کے معنی اور مفہوم اور اسکے اندر تدبر پربھی کافی زور دیا بلکہ تعلیم قرآن کا یہ ایک اہم جزء تھا اسلئے کہ بغیر معنی ومفہوم سمجھے قرآن کی حفاظت بے معنی تھی چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  بیان کرتے ہیں کہ ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلمسے قرآن سیکھتے تھے ، جب ہم دس آیتیں سیکھ لیتے تو اسکے بعد والی آیتوں کی طرف اس وقت تک نہ بڑھتے جب تک کہ ان دس آیتوں کے مقصد نزول وغیرہ کو نہ سمجھ لیتے ۔ {مسند ابویعلی [انحاف المہرۃ ج1ص404 276}مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ دس آیتوں سے آگے ہم اس وقت تک نہ بڑھتے جب تک ان آیتوں سے متعلق عمل و علم کو سیکھ نہ لیتے { انحاف المہرۃ 1 ص204 275 }

مشہور تابعی او ر مفسر حضرت مجاہد رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے پورا قرآن تیس بارپڑھا تھا اور تین بار اسطرح پڑھاکہ ہر آیت پر ٹہرتے اور پوچھتے کہ یہ آیت کس بارے میں نازل ہوئی اور کسطرح نازل ہوئی ۔{ سیر اعلام النبلا 4 ص 450}

بفضلہ تعالی علماء نے معانی قرآن کو واضح کرنے اور قرآن کی تفسیر و تاویل کی طرف خصوصی توجہ دی ، اہل لغت نے قرآن مجید کے مشکل الفاظ پر کتابیں لکھیں ، نحویوں نے وجوہ اعراب کی وضاحت کی ، علمائے بلاغت نے قرآن مجید کے اعجاز اور اسکی فصاحت و بلاغت کو واضح کیا ، علمائے شریعت نے عقائد ی ، فقہی اور اخلاق ومعاملات سے متعلق مسائل کا استنباط کیا ، حتی کہ دنیا میں جس قدر کتابیں قرآن مجید سے متعلق لکھی گئی ہیں وہ کسی اور کتاب سے متعلق نہیں لکھی گئیں اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے ، اور قابل تعجب یہ بات ہے کہ قرآن کے عجائب ابھی تک ختم نہیں ہوئے ، ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ بعض مولفین نے قرآن سے متعلق متعدد کتابیں لکھی ہیں ، اور ایسے بھی مفسر گزرے ہیں جنہوں نے قرآن مجید کی کئی کئی تفسیریں کی ہیں ۔

خود ہمارے علامہ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ نے قرآن مجید کی چار تفسیریں لکھیں ، ایک تفسیر عام مسلمانوں کیلئے ، البتہ اس تفسیر میں جگہ جگہ عسائیوں ، منکرین حدیث ، قادیانیوں اور دہریوں کا رد بھی کیا ہے ، دوسری تفسیر عربی میں ہے جو قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کی گئی ہے اسکا نام تفسیر القرآن بکلام الرحمن ہے ، تیسری تفسیر بیان القرآن علی علم البیان ہے یہ بھی عربی زبان میں ہے لیکن مکمل نہ ہو سکی ، چوتھی تفسیر تفسیر بالرائے ہے یہ تفسیر اردو زبان میں ہے اور خاصکر قادیانیوں ، چکڑالیوں ، نیچریوں اور ان دیگر فرق باطلہ کی تردید میں ہے جو قرآن کریم کا غلط ترجمہ اور غلط تفسیر کر کے اپنا مدعا ثابت کرنا چاہتے ہیں ، اسی طرح قرآن سے متعلق مولانا مرحوم کی متعدد اور کتابیں بھی ہیں جو تقریبا سب کی سب قرآن میں تحریف معنوی کی تریدید میں ہیں جیسے برہان التفاسیر برائے اصلاح سلطان التفاسیر ، بطش قدیر ، بر قادیانی تفسیر کبیر، قرآن اور دیگر کتب ، کتاب الرحمن ، القرآن العظیم اور الہامی کتاب وغیرہ ۔

ناظرین : یہ متاخرین میں سے صرف ایک خادم قرآن کریم کی تالیفات کا تذکرہ ہے اسی پر دنیا سے دیگر علماء اہل سنت اور انکی خدمت قرآن کا قیاس کیا جاسکتا ہے ۔ [ قیاس کن زگلستان من بہارمرا ]

قرآن کریم سے محبت وشفقت :

قرآن مجید کی حفاظت کا ایک ذریعہ اللہ تعالی نے یہ رکھا کہ اس کتاب کی محبت اسکے ماننے والوں کے دل میں ڈال دی ہے ، چنانچہ جسقدر اہل قرآن قرآن سے محبت کرتے ہیں اسقدر محبت کسی اور کتاب کے ماننے والوں نے اپنی مقدس کتاب سے نہیں کرتے ، اورم یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہےکہ جس چیز سے جس قدر زیادہ محبت ہوتی ہے اسی قدر اسکی حفاظت کا بھی لحاظ رکھا جاتا ہے ، ماضی قریب و بعید کی تاریخ بتلاتی ہے کہ اہل قرآن کے دلوں میں قرآن کی عجیب وغریب محبت ہے ، صحابہ کرام کا قرآن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک صحابی کسی سفر میں رات کے وقت نماز میں کھڑے کوئی سورت پڑھ رہے ہیں کہ دشمن نے تیر مارا لیکن صحابی نے تیر کو اپنے جسم سے نکال کر نیچے رکھ دیا ، دشمن نے دوسرا تیر مارا ،اسے بھی جسم سے نکال کر نیچے رکھ دیا ، پھر تیسرا تیرا مارا اور اسے بھی نکال کربغل میں رکھ دیا اور اس وقت تک رکوع نہیں کیا جب تک کہ سورت کو مکمل نہ کرلیا ، بعد میں ساتھی کے پوچھنے پر بتلایا کہ مین ایک سورت کی تلاوت کرہاتھا اور اسے نا مکمل چھوڑنا مناسب نہ سمجھا ۔

{سنن ابو داود :198 الطہارۃ ، مسند احمد :3 ص 344 بروایت جابر }

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قاتل انکے سرپر کھڑے ہیں اور وہ ہیں کہ قرآن مجید کی تلاوت جاری رکھے ہوئے ہیں ، حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ کی قرآن سے محبت وشفقت کا یہ عالم تھا کہ اسکو چہرے پر رکھ کر بے قراری کے ساتھ کتاب ربی ،کتاب ربی ، کہکر روتے تھے {مسند الدارمی :3350 فضائل قرآن ، مستدرک الحاکم 3 /243 }

بعد کے لوگ صحابہ رضوان اللہ علیہم کی محبت کو تو نہیں پاسکتے لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس امت کا ایک فاجر و فاسق آدمی بھی اس کتاب سے وہ محبت کرتا ہے جو کسی دوسری کتاب کا ماننے والا دیندار آدمی بھی اپنی کتاب سے نہیں کرتا ، حجاج بن یوسف کو کون نہیں جانتا کہ اسکا نام آتے ہی ظلم وبربریت اور سفاکی کئی ہزار دستا نہیں سامنے آجاتی ہیں لیکن اسکے باوجود وہ قرآن سے شدید محبت رکھتا اور اسکی بے انتہا تعظیم کرتا تھا{سیر اعلام النبلاء 4ص 343} اور یہ بھی مشہور ہے کہ قرآن میں اعراب لگانےکا کام حجاج بن یوسف ہی کا ہے ۔

اس مبارک کتاب سے محبت ہی کا کرشمہ ہے کہ اس کتاب کے ماننے والوں نے اسکے حروف وکلمات تک کا شمار کرڈالا ہے ، پھر سوچنے کی بات ہے کہ جس کتاب کے حروف وکلمات تک شمار میں ہوں اس کتاب کو کسطرح سے مٹایا یا اسمیں تحریف کی جاسکتی ہے ، اور حق تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس کتاب کی الہی حفاظت کا نمونہ ہے ۔

[ایں سعادت بزور بازو نیست ” تانہ بخشد خدا کے بخشندہ ]

اس کتاب سے محبت و شفقت کی اس سے بڑی مثال کہاں ملے گی کہ حتی کہ جس قوم پر نصف صدی سے زیادہ اسطرح حکومت کی گئی کہ اس کتاب کا نام لینے والوں ،اسے اپنے گھر میں رکھنے والوں کی سزا بلامقدمہ قتل تھی ، یہاں تک کہ اس کتاب کو پڑھنے اور یاد کرنے والی نسل ختم ہو جاتی ہے پھر دوسری نسل آتی ہے ، تیسری نسل آتی ہے پھر بھی اس کتاب کو پڑھنے اور یادکرنے کی بات تو چھوڑ دیجئے اس کتاب کے دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ملتی ، اسکے باوجود اس کتاب کی محبت انکے دلوں سے چھینی نہ جاسکی ۔

سویت یونین کے کسی پارک میں چند کویتی طلبہ ہفتہ واری چھٹی کے موقعہ پر ٹہل رہے تھے ، اچانک دیکھتے ہیں کہ ایک عورت ان سے مخاطب ہونا چاہتی ہے ، البتہ اسکی حالت عجیب ہے ، کپڑے پھٹے ہوئے ہیں ، فقر ومسکنت کی آثار نمایاں ہیں وہ خوف وپریشانی کی حالت میں ہے اور اس قدر چوکنا ہے کہ کوئی اسے دیکھ تو نہیں رہا ہے ، لڑکوں نے سمجھا یہ کچھ مالی مدد چاہتی ہے چنانچہ لڑکے اسکی طرف متوجہ ہوئے اور سبب پوچھا ، لڑکے اس انتظار میں تھے کہ وہ کچھ مبلغ طلب کرے گی لیکن خلاف توقع وہ ان سے قرآن مجید کا ایک نسخہ مانگتی ہے ،ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ میری اس بات کو کسی پر ظاہر نہ ہونے دینا ، اور مکمل طور پر راز میں رکھنا ، لڑکے اس پر بہت خوش ہوئے اور اگلے ہفتے اسے ایک کاپی قرآن کریم کی لاکر دینے کا وعدہ کیا ، اگلے ہفتہ اسی جگہ پر وہ عورت اسی کیفیت سے پھر حاضر ہوتی ہے اور حسب وعدہ لڑکوں نے اسے قرآن کریم کی ایک کاپی پیش کردی ، لیکن ان لڑکوں کے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ اس عورت نے اپنے ہاتھوں سے اپنے کنگن وہ بھی سونے کے کنگن اتار کر ان لڑکوں کو دے دیتی ہے لڑکے اصرار کرتے ہیں کہ اس نسخے کو ہدیہ کے طور پر قبول کرلو لیکن اس نے بلا مقابل اپنی محبوب ترین چیز کو لینے سے انکار کیا ، کنگنوں کوانکی طرف پھینکا ،قرآن کریم کے نسخے کو اپنے سینے سے لگایا اور وہاں سے رخصت ہوگئی ، ایسا محسوس ہورہا تھا کہ وہ ساری دنیا کی دولت لیکر جارہی ہے ۔{مواقف نسائیہ مشرقہ از نجیب خالد العامر ص 16/17 }

سچ ہے [دو عالم سے کرتی ہے بے گانہ دل کو-عجب چیز ہے لذت آشنائی]اقبال

ناظرین :اب سوال ہے کہ کیا دنیا کی تاریخ کسی اور کتاب سے محبت کی ایسی مثالیں پیش کر سکتی ہے ؟ نہیں ہر گز نہیں ،تو پھر وہ کتاب کس طرح مٹائی جاسکتی ہے جس سے محبت کر نے والے ایسے لوگ موجود ہوں ۔

وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد صلی اللہ علیہ وسلم

ختم شدہ