كفار كےتہوار اور ان ميں شركت كا حكم

كفار كےتہوار اور ان ميں شركت كا حكم

رہتي دنيا تك حق وباطل اور امت محمديہ كےگروہ اور يہود ونصاري اور مجوسيوں اوربت پرستوں وغيرہ كا معركہ رہتي دنيا تك ہميشہ رہےگا، اور اہل حق تنگي اورتكليفوں كےباوجود حق پر قائم رہيں گے، يہ سب كچھ سنن كونيہ جو كہ مقدر كي ہوئي اور لكھي جاچكي ہيں ميں سےہے.

اس كا معني يہ نہيں كہ اپنےآپ كو ان كےسپرد كرديا جائےاور گمراہوں كےراستےپر چلنا شروع ہوجائيں، كيونكہ ہميں يہ خبر دي چكي ہے كہ ايسا ضرور ہوگا اسي ليےہميں اس راستےپر چلنےسے ڈرايا گيا اور اسي ليے دين اسلام پر ثابت قدم رہنےكي تلقين كي گئي چاہے گمراہ لوگوں كي جتني بھي كثرت ہوجائے، اور صراط مستقيم سے منحرف لوگ جتني بھي طاقت حاصل كر كےقوي ہوجائيں.

ہميں يہ بتايا جاچكا ہے كہ سعادت مند اورخوشبخت شخص وہ ہے جو حق سےروكنےوالي جتني بھي اشياء ہوں ان سب كےباوجود حق پر ثابت قدم رہے اور استقامت اختيار كرے، ايسے دور ميں جس ميں صحيح عمل كرنے والے كو صحابہ كرام كي مثل پچاس آدميوں كےعمل كا اجروثواب حاصل ہوگا جيسا كہ صحيح حديث ميں ابوثعلبہ خشني رضي اللہ تعالي عنہ نے نبي صلي اللہ عليہ وسلم سےبيان كيا ہے.

اورامت محمديہ ميں كچھ ايسےلوگ بھي ہونگےجو حق سےانحراف كر كے باطل كو صحيح كہيں گےاور دين ميں تغير وتبدل كر كےبدعات كي ايجاد كرليں گے، توايسے لوگوں كي سزا يہ ہے كہ انہيں حوض كوثر سے دور ہٹا ديا جائےگا اوراس كےقريب بھي نہيں پھٹكنےديا جائےگا، جب نيك اور صالح اور استقامت اختيار كرنےوالےلوگ حوض كوثر پر آكر پاني پيئيں گے تو يہ بدعتي بھي وہاں آنےكي كوشش كرينگے ليكن انہيں وہاں سےبھگا ديا جائےگا جيسا كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

( ميں حوض پر تمہارا انتظار كرونگا، اور ميري جانب كچھ لوگ لائے جائيں گے حتي كہ جب ميں ان كي جانب متوجہ ہو كرانہيں دينا چاہوں گا تو ميرے اوران كےمابين ركاوٹ حائل كردي جائےگي تو ميں كہوں گا اے ميرے رب يہ ميرے ساتھي ہيں، تو مجھےكہا جائےگا: آپ كو علم نہيں كہ آپ كےبعد انہوں نےكيا بدعات ايجاد كرليں تھيں )

اور ايك روايت ميں ہےكہ ” ميں كہوں گا: جس نےميرے بعد تبديلي كردي اس كےليے دوري ہے.

محمد صلي اللہ عليہ وسلم كےدين ميں تغيروتبدل اور نكارت كا سب سے بڑا مظہر اللہ تعالي كےدشمنوں كي ہر چھوٹے اور بڑے معاملے ميں ترقي اور حضارۃ جيسےناموں كےساتھ ان كي تقليد اور ان كي پيروي كرنا ہے، اور اس كے علاوہ امن وسلامتي سےزندگي بسر كرنا، اور انساني بھائي چارہ اور نئے ورلڈ آرڈر اور عالميت اور كونيت جيسے دھوكہ اور فراڈ پر مبني نعروں كےتحت ان پر عمل كرتےہوئےكفار كي تقليد وپيروي دين ميں تغير وتبدل كا سب سے بڑا مظہر ہے.

اورايك غيرمند مسلمان اس خطرناك بيماري كو امت كےاكثرلوگوں ميں ديكھتا ہے الا وہ شخص اس بيماري سے بچا ہے جس پر اللہ كا رحم ہوا، حتي كہ لوگوں نے ان كےديني شعائر ميں بھي ان كي تقليد اور پيروي كرني شروع كردي ہے، اور خاص كران كي عادات اپناني شروع كرديں ہيں مثلا ان كے تہوار جو كہ من جملہ طريقوں اور منہج ودستور ميں شامل ہيں انہيں اپناليا ہے حالانكہ اللہ تعالي كا فرمان ہے:

{اس حق سےہٹ كر ان كي خواہشوں كےپيچھے نہ جايئے تم ميں سےہر ايك كےلئے ہم نے ايك دستور اور راہ مقرر كردي ہے} المائدۃ ( 48 )

{ہرامت كےليےہم نے عبادت كا ايك طريقہ مقرر كرديا ہے جسے وہ بجا لانےوالےہيں} الحج ( 67 ) . يعني ان كےخاص كر ان كےتہوار ہيں.

اورجبكہ بہت سےمسلمان اللہ تعالي كےدشمنوں كے كھوٹےاور ردي مال كي چكاچوند چمك كےدھوكہ ميں آچكےہيں، اور خاص كرنصاري كےبڑے بڑے تہواروں جيسا كہ ميلاد مسيح عليہ السلام جسے كرسمس كہا جاتا ہے اوراسي طرح سال نوكےموقع پرمنايا جانےوالا تہوارمسلمان ان كےممالك ميں ان كے ساتھ ان تہواروں ميں شركت كرتےہيں، بلكہ اس وقت تو بعض نےان تہواروں كو مسلمان ممالك ميں بھي منتقل كرديا ہے- اللہ تعالي اس سےبچائے – بہت بڑي مصيبت اور عظيم آزمائش يہ ہے كہ اس وقت عالمي طور پر جو اور خاص كر عيسائي ممالك ميں سن دو ہزار كےاختتام اور تين ہزارميلادي ميں داخل ہونے كا جشن منانے كي تيارياں جاري ہيں، جبكہ ہرميلادي سال كےآخر ميں بھي زمين ان جشنوں سےلرز رہي ہوتي ہے تو بيسويں صدي كےاختتام كا جشن كيسا ہوگا؟ اس وقت عيسائي امت اس جشن كےليے بہت عظيم تياري ميں لگي ہوئي ہےجو كہ اس كےمناسب ہو.

يہ عيسائي جشن صرف عادت كےمطابق سال نو كي رات والا جشن ہي نہيں ہوگا جيسا كہ عيسائي ممالك اور ان كےديني قبلہ ويٹيگن ميں ہوتا ہے تياري اس كي ہورہي ہے كہ مركزي جشن بيت لحم جو كہ مولد مسيح عليہ الصلاۃ والسلام ہے ميں منايا جائے، تو اس طرح عيسائيوں كےسياسي اور ديني ليڈر جن ميں انجيلي بھي ہونگےاور علماني بھي جواس جشن كو جلا عالمي طور پر ميڈيا ميں جلا بخشيں گے، اور جوں جوں وقت قريب آرہا ہے عالمي صحافت ميں ہر دن نئے سرے سے بحث كي جاتي ہے، اور توقع كي جارہي ہے كہ بيت لحم ميں تين ملين سےزيادہ افراد اكٹھےہونگےجن كي قيادت پوپ جان پال ثاني كرےگا، اور اس عالمي جشن ميں قرب وجوار كےاسلامي ممالك بھي اس اعتبار سےشركت كرينگےكہ عيسائي تہوار كےكچھ شعار ان اور مقامات ان كےممالك ميں بھي پائے جاتےہيں جو كہ ميسح عليہ السلام كےبپتسمہ كي جگہ ہے جہاں انہيں ( يوحنا معمدان ( يحيي عليہ السلام ) نے اردن كےدريا ميں بپتسمہ ( عيسائي رسم ہے ) ديا تھا، بلكہ بہت سے مسلمان اس جشن ميں اس اعتبار سےبھي شركت كرينگے كہ يہ عالمي جشن ہے جو روئےزمين پر بسنےوالے سب لوگوں كےلئے اہم ہے.

ان لوگوں كويہ علم نہيں كہ بيسويں صدي كےاختتام كا يہ جشن ايك نصراني تہوار ہے ( مسيح عليہ السلام كي عيد ميلاد كرسمس جو ہرميلادي سال كےآخر ميں منائي جاتي ہے ) اور اس ميں شركت كرني ان كےديني شعار ميں شركت ہے، اور اس سے فرحت وسرور حاصل كرنا كفر كےشعار اوراس كے ظھور اور غلبہ پر خوشي وسرور ہے، اور اس ميں مسلمان كےعقيدہ اور ايمان كو خطرہ ہے اس ليے كہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا صحيح حديث ميں فرمان ہے كہ: ” جس نے كسي قوم سےمشابہت اختيار كي وہ انہيں ميں سےہے” توپھر وہ شخص جو ان كےديني شعار ميں شركت كرلے اس كا كيا بنےگا؟

اوريہ ہميں حتما اس بات كي دعوت ديتا ہے كہ ہم كفار كےتہواروں حكم جانيں اور اس سلسلہ ميں مسلمان شخص پر كيا ذمہ داري عائد ہوتي ہے، اور ان كي مخالفت كي كيفيت كيا ہوگي جو كہ ہمارے دين حنيف كےاصولوں ميں سے ايك اصول ہے، بلكہ ان كےتہواروں اور شعائر كا تعارف اس مقصد اور ارادے سے ہو كہ ان تہواروں سےاجتناب كيا جائےاور دوسروں كوبھي اس سے بچايا جائے .

ہم پركفار كےتہواروں كا تعارف حاصل كرنا كيوں ضروري ہے؟

يہ بات متفق عليہ ہے كہ مسلمان شخص كےليے كفار كےحالات جاننا كوئي معني نہيں ركھتا، اور نہ ہي ان كےشعار اور عادات كي معرفت اس كےلئےاہم ہے- جب تك وہ انہيں اسلام كي دعوت نہ دينا چاہے – ليكن جب ان كےشعار جاہل قسم كے مسلمانوں ميں سرايت كررہےہوں اور وہ اس ميں قصدا يا بغير قصد كےپڑ رہے اور اس پر عمل كررہے ہوں تواس وقت ان كي معرفت ضروري ہو جاتي ہے تا كہ ان سےاجتناب كيا جاسكے، اس آخري دور ميں اس كي ضرورت بہت زيادہ ہوگئي ہے جس كےاسباب مندرجہ ذيل ہيں:

1 – كفار سے ساتھ كثرت سے ميل جول اور اختلاط چاہے وہ مسلمان كا ان كےملك ميں حصول تعليم كےجانےكي صورت ميں ہو يا پھر سير وسياحت اور تجارت كےلئےيا كسي اور سبب كي بنا پر، توان كےممالك ميں جانے والے يہ لوگ وہاں ان كےكچھ ديني شعار اور كام ديكھتے ہيں توانہيں يہ كام اچھےلگتے ہيں تويہ ان كي پيروي كرنا شروع كرديتےہيں اور خاص كر نفساتي ہزيمت و شكست كےساتھ اور ان كا كفار كو شديد قسم كي پسنديدگي كي نظروں سے ديكھنا ان كےارادہ كو سلب كرليتا ہے اور ان كےدل ميں فساد پيدا ہوتا ہے جس كي بنا پر دل ميں دين كمزور ہوجاتا ہے.

اسي وجہ سے بہت سے مغربي ثفافت كےدلدادہ لوگ كافروں كو ترقي يافتہ اور مھذب يافتہ لوگ كہتےہيں حتي كہ ان كي عادت اور عادتا كيےجانے والےاعمال ميں بھي ترقي يافتہ مانتےہيں، يا پھريہ اس طريقہ سےہوتا ہے كہ ان كےتہواروں كو غيرمسلم افليات اور گروہوں كےذريعہ اسلامي ممالك ميں ظاہر كيا جاتا ہے جس سے جاہل قسم كےمسلمان لوگ متاثر ہوتےہيں .

2 – معاملہ اوربھي خطرناك اس ليےہوگيا ہے كہ وسائل اعلام يعني ميڈيا جو كہ ہر چيز كو تصوير اور آواز كےساتھ روئے زمين ميں ايك جگہ سےدوسري جگہ منتقل كرنے كي قدرت ركھتا ہے، اور اس ميں كوئي شك نہيں كہ كفار كا ميڈيا اپني عادات اور شعار نشر كرنے ميں مسلمانوں كےميڈيا كي بنسبت زيادہ قوي اور طاقتور ہے اس كےبرعكس مسلمان ميڈيا كےپاس كچھ بھي طاقت نہيں اس طرح كہ بہت سے فضائي چينل دوسروں كےتہوار نشر كرنے ميں لگےہوئے ہيں اور خاص كرعيسائيوں كےتہوار نشر كيےجاتےہيں، اور زيادہ خطرناك بات يہ ہے جس سے معاملہ اور زيادہ خطرناكي اختيار كرچكا ہے كہ بعض علماني تنظيموں نےمسلم ممالك ميں كافروں اور بدعتيوں كےبہت سے تہوار اور شعار اور ان كےجشن كو ترويج دي اور انہيں عرب فضائي چينلوں كےذريعہ دنيا كے سامنےپيش كيا تو اس سے مسلمان دھوكہ كھا گئے كيونكہ يہ مسلمان ممالك سے نشر كيے جارہے اور اسلامي ممالك ميں جشن منائے جارہے ہيں .

3 – مسلمانوں كو تاريخ كےساتھ ساتھ اس مشكل كا سامنا رہا ہے كہ بعض مسلمان غيرمسلموں سےميل جول كي بنا پر ان كےشعار سے متاثر ہوئے جن كي بنا پر مسلمان علماء دين كواس بات كي ضرورت پيش آئي كہ وہ عام مسلمانوں كو مسلمانوں كےعلاوہ دوسروں كےتہواروں اور ان كےشعائر كي تقليدكرنے سے اجتناب كرنے كا كہيں اورانہيں اس سےڈرائيں، مثال كے طور پر ان علماء كرام ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كےشاگر علامہ ابن قيم اور حافظ ذہبي اور حافظ ابن كثير رحمہم اللہ تعالي شامل ہيں، يہ سب ايك ہي دور ميں رہے جس ميں مسلمانوں كا دوسري قوموں كےساتھ ميل جول بہت زيادہ تھا اور خاص كر عيسائيوں كےساتھ ، توجاہل قسم كےمسلمان لوگ ان كےبعض ديني شعار اور ان كےتہواروں سے متاثر ہوگئے، لھذا ان علماء كرام نے اس مسئلہ كے متعلق اپني تصانيف ميں بہت زيادہ كلام كي اور بعض نے تو اس مسئلہ ميں عليحدہ كتاب تصنيف كردي جيسا كہ ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي نے اپني كتاب ” اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفۃ اصحاب الجحيم ” اور حافظ ذہبي رحمہ اللہ تعالي نے ” تشبيہ الخسيس باھل الخميس ” جيسا رسالہ تصنيف كيا .

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي نے ان كےتہوار اوران ميں كيے جانے والے اعمال اور جاہل قسم كےمسلمانوں پراس كا اثر اور ان كےتہواروں كي انواع و اقسام اور اس ميں كونسےشعار اپنائےجاتے اور كيا عادات ہوتي ہيں ان سب كا ذكر بہت طوالت كےساتھ كيا ہے ان سب اشياء كي معرفت سے مسلمان مستغني ہے ليكن اگر اسے كسي سبب يعني بہت سے مسلمان كا ان شعار ميں اہل كتاب كي پيروي كرنا كي بنا پر ضرورت پيش آئے تو وہ ان كي معرفت حاصل كرتا سكتا ہے.

شيخ الاسلام رحمہ اللہ تعالي نے ان كےتہوار بيان كيےاور انہوں نےاسے تحذير يعني بچاؤ كےلئےذكر كيا ہے وہ اس ميں بحث كرتے ہوئےكہتےہيں:

ان كےباطل كي تفصيل جاننا ہماري غرض نہيں، ليكن ہميں يہي كافي ہے كہ ہم برائي كواس ليےپہچانے تاكہ برائي اور مباح اور نيكي ميں تميز كي جا سكے، مستحب اور واجب كا علم ہوجائے، حتي كہ اس معرفت كي بنا پر ہم اس سے بچ كر اس سے اجتناب كريں. جيسےہم سب حرام اشياء كو جانتےہيں، جبكہ ہم پر اس كا ترك كرنا فرض ہے، اور جو شخص برائي كو اجمالي اور تفصيلي طور پر نہيں جانتا وہ اس كےاجتناب كا قصد نہيں كرسكتا، اور واجبات كے خلاف اجمالي معرفت ہي كافي ہے، .

ان كا يہ بھي كہنا ہے كہ:

ميں ان كےدين كي منكرات اور بري اشياء اس لئے شمار كي ہيں كہ ميں نےديكھا ہے كہ مسلمانوں كےبعض گروہ اس ميں مبتلا ہوچكےہيں اور ان ميں سے بہت سارے اس سےجاہل ہيں كہ يہ كام نصاري كےدين ميں سےہيں، مجھے ان سب كاموں كا تو علم نہيں جو وہ كرتےہيں بلكہ ميں نےوہ كام ذكر كئےہيں جو بعض مسلمان كرتےہيں اور وہ اصل ميں عيسائيوں سے ليے گئےہيں.

4 – عصرحاضرميں ان كےبعض تہوار بہت بڑے اجتماع ميں بدل چكے ہيں اس كےخصائص وہي پرانےتہوار والے ہيں، اور اس ميں بہت سارے مسلمان بغير كسي علم كےہي شريك ہوجاتےہيں، جيسا كہ كھيلوں كےاولمپك مقابلےہوتےہيں جو كہ اصلا يونانيوں اور پھر روميوں اور پھر عيسائيوں كا تہوار ہے، اور اسي طرح وہ مہرجانات جو خريدوفروخت يا پھر ثقافت وغيرہ كےنام سےمنعقد كئےجاتےہيں حالانكہ اصل ميں مہرجان فارسيوں كا تہوار ہے، اور ان مہرجانوں كا انعقاد كرنےوالے اكثرلوگ اس سےجاہل ہيں.

5 – شر اور برائي كواس ليےجاننا كہ اس سے بچا اوراجتناب كيا جائے، خذيفہ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ: لوگ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے خيروبھلائي كےبارہ ميں سوال كيا كرتےتھےاور ميں شروبرائي كے متعلق ان سےاس ڈر كي بنا پر سوال كرتا كہ كہيں مجھے وہ پا نہ لے.

يہ تو ہر ايك كےعلم ميں ہے كہ سب سےعظيم شر اور خطرناك بيماري يہ ہےكہ ايك مسلمان شخص كسي ايسے شعار كا مرتكب ہو جوكفار كےشعار ميں اور ان كي خاص عادات ميں سےہو اور مسلمان اسےجانتا تك نہ ہو حالانكہ ہميں اس سےاجتناب كرنےاوربچنےكا حكم ديا گيا ہے كيونكہ وہ پليدي اور گمراہي ہے.

6 – بہت سے ايسے دعوے اورمنافقت كي آوازوں كي كثرت جو امت مسلمہ كواس كي اصليت سےنكالنا چاہتي اور اس كي شخصيت كا خاتمہ كرنا اور اسے كفار كےمنہج اور طريقہ ميں ڈھالنا چاہتي ہيں، اوراس آوزوں اور دعووں كےبالكل جوتےكے برابر پيروي كرنے والے انسانيت، عالميت، كونيت، اور دوسروں كےساتھ خوش باشي اوراس سے ثقافت كےحصول جيسےكھوكھلےاور غلط نعروں كےتحت اسلامي اقدار كا خاتمہ چاہتےہيں، جس سے حتمي طور پر يہ علم ہوتا ہے كہ دوسرے يعني كافر كےپاس جوگمراہي وضلالت، اور انحراف ہے اسے ننگا كرنےاوراس كي نوسربازي كو ظاہر كرنے اوراس كےخوبصورت پردے جوان قبيح قسم كےدعووں كےصورت ميں ہيں كو چاك كرنےكےليے اسےجاننا ضروري ہوجاتا ہے، تاكہ جو كوئي زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ دليل اور برہان كےساتھ زندہ رہے تاكہ:

{تا كہ جوہلاك ہو دليل پر( يعني يقين جان كر ) ہلاك ہو اور جو زندہ رہے وہ بھي دليل پر ( حق پہچان كر ) زندہ رہے} الانفال ( 42 ).

اور تاكہ محمد صلي اللہ عليہ وسلم كےاتباع وپيروكاروں پر حجت قائم ہو جائے اور وہ دھوكہ اور فراڈ ميں نہ آجائيں.

فرعونوں كےتہوار:

فرعونوں كےتہواروں ميں: باد نسيم سونگھنےكا تہوار، جو كہ ايام كے تقدس كےليےمنايا جاتا ہے ان لوگوں كا قرب اور فال حاصل كرنے كےلئے جو غيراللہ كي عبادت كرتےتھے، شيخ محفوظ نے وہ كچھ ذكركيا ہے جوكچھ ان كےدور ميں فسق وفجوراور ذلت ہوتي رہي ہے، جس سے پيشاني بھي شرم سے جھك جاتي ہے وہ اس طرح كہ كھيت وكھلوان اور خالي جگہيں فاجر وفاسق اور بےحيا لوگوں كي جماعتوں سے اٹ جاتے اور سب بوڑھے بچے اورجوان مرد وعورتيں باغوں اور پاركوں اور نہروں ودرياؤں كي طرف زنا كا ارتكاب كرنےاور شراب نوشي وغيرہ كےلئےكھنچے چلےآتے ان كا گمان تھا كہ اس دن ميں ان كے لئے ہر قسم كي خباثب جائز ہے.

اور اس دن ميں ان كےاوہام ميں يہ بھي تھا كہ: سونے والے شخص كے سر كےنيچے پياز ركھتے اور اسے دروازوں پر يہ گمان كرتےہوئے لٹكاتے كہ اس سے ان كي سستي اور كاہلي اور بدہضمي دور ہوجاتي ہے، فرعونوں كےتہواروں ميں يہ معدود تھا، اور يہ بھي كہا گيا ہے كہ اسے قبطيوں نےايجاد كيا، اس ميں كوئي مانع نہيں كہ يہ دونوں نےہي كيا ہو اور ان ان كي طرف منتقل ہوا ہو اور ابھي بہت سے اہل مصر خاص كر قبطي اس كا جشن مناتے ہيں اوراس ميں بہت سے مسلمان لوگ بھي شركت كرتےہيں.

اور اس آخري دور ميں بہت سے علماني مصنفوں نے اس كےمتعلق لكھا ہے اور اس كي مطالبہ كيا ہے كہ يہ تہوار سركاري طور پر منايا جائےتا كہ فرعونوں كي ثقافت زندہ ہوسكے، اس وقت ميں جبكہ وہ اسلامي شعائر كو تخلف اور ترقي پذير كانام ديتےہيں.

يونانيوں كےتہوار:

يونانيوں كےہاں سال كےبہت سےمہنيےہيں جن كےنام ان كےتہواروں كي مناسبت سےركھےہوئےتھے، اور ان كےتہواروں كا خرچہ غني اور مالدار لوگ برداشت كرتےتھے، ان كےعام اور اكثر تہواروں كا تعلق ان بت پرست دين كے شعائر پر جو كہ كئي ايك معبودوں پر مبني تھا كےساتھ رہا ہے، ان كے تہواروں كي تعداد بہت زيادہ ہوچكي تھي تا كہ وہ ان تہواروں سے زندگي كي تھكاوٹ كو دور كرسكيں، حتي كہ يہ تہوار اتني كثرت سےتھے كہ كوئي بھي مہينہ ايك يا كئي ايك تہواروں سےخالي نہ تھا صرف ايك مہينہ جسے وہ ممكٹريون كا نام ديتےتھےيہ مہينہ تہوار سےخالي رہا.

اور ان كےيہ تہوار فحاشي اور زناكاري، شراب نوشي، اورمطلقا حيواني خواہشات كوپورا كرنے اور جو چاہے كرنے كا نشان بن چكےتھے، جيسا كہ ان تہواروں ميں كئي قسم كي خرافات اور گمراہياں بھي تھيں مثلا ان كا گمان تھا كہ مردوں كي روحيں حاضر ہوتي اور پھر تہوار ختم ہونے پر واپس جاتي يا انہيں دھتكار ديا جاتا ہے .

ان كےمشہور تہواروں ميں مندرجہ ذيل تہوار شامل ہيں:

اولمپك كا تہوار جو كہ اليس ميں ہر چار برس بعد منعقد كيا جاتا ہے اور سب سے پہلا معترف اولمپيئن سن ( 776 ) ميلادي ميں ہوا اور يہ جشن اور تہوار ان كےسب تہواروں اور موسمي اجتماعات سے بڑا ہوتا ہے، اس تاريخ سے ليكر ان مقابلوں پر اولمپك مقابلوں كااطلاق ہونےلگا، اور اس كا ايك وطني رنگ اورقومي مضامين تھے حتي كہ يہ كہا جانےلگا:

كہ يوناني لڑائيوں ميں فتح حاصل كرنے سے زيادہ اولمپك مقابلےجيتنےپر فخر كرتےہيں، اور اس وقت يہ تہوار سب سےبڑا تھا.

كھيلوں كےيہ مقابلےآج تك منعقد ہو رہےہيں اور ان كاانعقاد عيسائي امت ہي اسي پرانےنام اور وراثتي علامات وشعار كےساتھ منعقد كرواتےہيں اس كا علامتي نشان اولمپك مشعل جلانا اور اسے اولمپك كھيليں منعقد كروانے والے ملك منتقل كيا جاتا ہے بلكہ افسوس كےساتھ يہ كہنا پڑتا ہے كہ اب اس مشعل كو جلا كرپوري دنيا ميں گھمايا جاتا ہے.

اور افسوس ہے كہ اب كچھ مسلمان بھي اس ميں شركت كرنا فخر محسوس كرتےہيں، اور اكثر لوگ اس سےغافل ہيں كہ اصل ميں يہ كفار كا بہت بڑا تہوار اور ان كےبت پرست دين ميں مقدس ايام ہيں، لھذا ہم گمراہي اور اندھي تقليد سےاللہ تعالي كي پناہ ميں آتےہيں.

اوريونانيوں كےاور بھي بڑے بڑے تہوار ہيں مثلا ہيلن يونيورسٹي كے تہوار، اورايونيہ يونيورسٹي كےتہوار وغيرہ .

روميوں كے تہوار :

سب امتوں ميں روميوں كےسب سےزيادہ تہوار ہيں وہ اس طرح كہ ايك برس ميں ايك سوسےزيادہ مقدس ايام ہيں جنہيں وہ تہوار سمجھتےہيں، ان ميں ہر ماہ كا پہلا دن بھي شامل ہے، اور يہ بعض تہوار فوت شدگان اور عالم سفلي كي ارواح كي تقديس كے ليے خاص ہيں، ان كےگمان كےمطابق ان كے تہواروں اوران ميں جو كچھ كيا جاتاہے فوت شدگان كے غضب كو ختم كرنے ليےہے.

ان كے مشہور تہوار يہ ہيں:

ہر برس چودہ فروري كواپنےبت پرست دين كےمطابق يہ اعتقاد ركھتے ہوئے حب الہي كا تہوار مناتےہيں اور يہ تہوار ( 1700 ) برس قبل ايجاد كيا گيا جبكہ روميوں ميں بت پرستي كا دور دورہ تھا اور ان كي حكومت نے بشپ ويلنٹائن جو كہ ايك بت پرست تھا اور پھر عيسائيت قبول كرلي كو پھانسي لگا ديا تھا، لھذا جب روميون نے عيسائيت قبول كي تو انہوں نے اس دن كو شھدائےحب يعني محبت كےدن كا تہوار بنا ديا اور آج تك امريكا اور يورپ ميں يہ تہوار منايا جاتا اور دوستي ومحبت كےشعور كا اعلان كرنے اور مياں بيوي اور محبت كرنے والوں كي محبت كي تجديد كا عہد كرنےكےلئےمناتے ہيں اور اس تہوار كا اجتماعي اور اقتصادي طور پر اہتمام ہونےلگا ہے، اوراب اسے ويلنٹائن ڈے كانام دے ديا گيا ہے.

اور لگتا ہےكہ اسي طرح كا ايك اور تہوار پيدا ہوچكا ہے جو كہ خاوند بيوي يا دومحبت كرنے والوں كا تہوار ہے خاوند بيوي اسے ہربرس اپني شادي كے دن ميں محبت كي تاكيد كےلئےمناتےہيں اور ميل جول كي بنا پر يہ تہوار اب مسلمانوں ميں بھي منتقل ہو چكا ہے، بہت سےمسلمان ممالك ميں خاوند اور بيوي كفار سےمشابہت كرتے ہوئے شادي كي رات ميں خاص كرمناتےہيں، لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلي العظيم.

يہوديوں كےتہوار :

1 – عبري سال كے آخر ميں ہيشا كےنام سےتہوار منايا جاتا ہے اس كے متعلق ان گمان ہے كہ اسميں ذبيح اسحاق عليہ السلام كےبدلےميں فديہ ديا گيا تھا ( ان كے غلط گمان كے مطابق حالانكہ ذبيح تو اسماعيل عليہ السلام ہيں نہ كہ اسحاق عليہ السلام ) اور مسلمانوں يہ تہوار مسلمانوں كےہاں عيدالاضحي كے مقام پر ہے.

2 – صوماريا يا كيبور كا تہوار جسے وہ يوم غفران يعني بخشش كا دن كہتےہيں.

3 – المظلل يا الظلل كا تہوار جو كہ پندرہ تشرين ( 15 اكتوبر ) كو مناتےاور اس ميں درخت كي ٹہنيوں كا سايہ حاصل كرتےہيں اور اسے وہ مريم عذراء كےروزے كے دن كا نام بھي ديتےہيں .

4 – عيد الفطير جو پندرہ نيسان ( 15اپريل ) كو اس مناسبت سےمنايا جاتا ہے كہ تيرہويں صدي قبل ميلادي ميں بني اسرائيل نےمصر ميں غلامي سے فرار اختيار كيا تھا، اور اس تہوار كا قصہ توراۃ كےاصحاح ثاني عشر كے سفر خروج ميں بيان كيا گيا ہے،اس تہوار كي مدت آٹھ دن ہيں اوريہ مقبوضہ فلسطين ميں منايا جاتا ہے، اور اصلاح پسند يہودي اسے اپنےعلاقوں ميں سات دن تك مناتےہيں ، اور اس ميں ان كا ايك جشن بھي ہے جس كا نام ( السيدار ) ہے اور اس تہوار ميں الحقادا كتاب ميں سے بني اسرائيل كےفرار كا قصہ پڑھتےہيں، اور بغير خميرشدہ روٹي كھاتےہيں اس ليے كہ جب بني اسرائيل فرار ہوئے توانہوں نےيہ كھائي تھي كيونكہ ان كےپاس خمير كرنے كا وقت ہي نہيں تھا اور آج تك يہودي اس تہوار ميں يہ روٹي كھاتےہيں.

5 – عيد الاسابيع يا ( العنصرۃ ) يا ( الخطاب ) كا تہوار ان كا گمان ہے كہ يہ وہ دن ہے جس ميں اللہ تعالي نے موسي عليہ السلام سےكلام فرمائي تھي.

6 – يوم التكفير ( كفارہ كا تہوار ) يہودي سال كے دسويں مہينہ ميں منايا جاتا ہے، اس تہوار ميں آدمي نو دن كےليے دوسروں سے كٹ كر عبادت كرتا اورروزے ركھتا ہے اوراسےايام توبہ كانام ديا جاتا ہے.

7 – الہلال الجديد، نئےچاند كاتہوار، يہ تہوار ہر نيا چاند طلوع ہونے پر منايا جاتا تھا وہ اس طرح كہ بيت المقدس ميں سينگ ميں پھونك ماري جاتي اور اس كي خوشي ميں آگ جلائي جاتي تھي.

8 – عيداليوبيل ، اس كا بيان سفر اللاويين ميں كيا گيا ہے.

اس كےعلاوہ بھي ان كےكئي ايك تہوار ہيں جن ميں مشہور يہ ہيں: كاميابي كا تہوار ( البوريم ) اور اسے التبريك ( مباركبادي ) كانام بھي ديتے ہيں.

عيسائيوں كےتہوار :

1 – قيامت كا تہوار: اسے عيد الفصح ( ايسٹر ڈے ) كانام بھي ديا جاتا ہے، اور عيسائيوں كا سب سے اہم سالانہ تہوار ہے، اور اس سے قبل بڑا روزہ ہوتا ہے جو چاليس يوم تك الفصح كےتہوار ( ايسٹر ڈے ) سےقبل تك چلتا ہے، اور يہ تہوار عيسائي مسيح عليہ السلام كي واپسي كي ياد يا انہيں سولي پر لٹكانے كے بعد اس كي قيامت جو كہ ان كي موت كے دو دن بعد كي ياد ميں منايا جاتا ہے،( ان كےاپنے گمان كےمطابق ) اور يہ مختلق قوانين اورشريعتوں كا خاتمہ ہے جو كہ يہ ہيں:

ا – بڑے روزے كي ابتدا جو كہ ايسٹر ڈے سے چاليس يوم كا روزہ ہے اور وہ بدھ كےدن روزہ شروع كرتےہيں جسے وہ رتيلا بدھ كانام ديتےہيں، اس ليے كہ وہ حاضرين كي پيشانيوں پر ريت ركھتےہيں اور باربار يہ دہراتےہيں : ( ہم مٹي سے شروع كرتےہيں اور اس كي طرف پلٹيں گے ) .

ب – پھر اس كےپچاس دنوں بعد پچاسويں يا عنصرہ كےتہوار پر ختم كرتے ہيں .

ج – تكليفوں كا ہفتہ: يہ روزے كي مدت كا آخري ہفتہ ہوتا ہے اور ان حادثات كي طرف اشارہ كرتاہے جو عيسي عليہ السلام كو موت اور ان كي قيامت كي طرف لےگئے، جيسا كہ وہ گمان كرتےہيں .

د – احد العسف، يہ وہ اتوار كا دن ہے جو ايسٹر ڈے سے قبل آئے اور يہ ميسح عليہ السلام كا بيت المقدس ميں كامياب داخل ہونے كي ياد كےطور پر منايا جاتا ہے.

ھ – خميس العہد: يا الصعود عہد والي جمعرات، يہ مسيح عليہ السلام كےآخري كھانےاور ان كي قيد كي طرف اشارہ كرتي ہے.

و ـ الجمعۃ الحزينۃ: غم والا جمعہ، يہ ايسٹر ڈے سے پہلے والا جمعہ ہے اور صليب پر مسيح عليہ السلام كي موت كي طرف اشارہ كرتا ہے( ان كےگمان كےمطابق ) .

ز ـ سبت النور: روشني والا ہفتہ كا دن ، يہ وہ ہفتےكا دن ہے جو ايسٹر ڈے سےقبل آتا ہے، اور مسيح عليہ السلام كي موت كي طرف اشارہ كرتا ہے اور يہ دن مسيح عليہ السلام كا ايسٹر ڈے منانے كےانتظار كا دن ہے، اور يہ ايسٹرڈے كےسارے جشن يوم صعود يا خميس الصعود ( چڑھنےكي جمعرات ) ميں ختم ہو جاتےہيں جہان ہر گرجےميں ميسح عليہ السلام كا آسمان پڑ چرھنے كا قصہ پڑھا جاتا ہے، اور عيسائيوں ميں مذاہب اور ممالك مختلف ہونے كي بنا پر تہوار بھي مختلف اور كئي ايك ہيں، اور وہ سابقہ جمعہ اور جمعرات كو بڑي جمعرات اور بڑا جمعہ كا نام ديتےہيں ، جيسا كہ شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي ذكر كيا ہے، اور حافظ ذھبي رحمہ اللہ تعالي كا رسالہ: ( تشبيہ الخسيس باھل الخميس ) سے بھي يہي جمعرات مراد ہے، اور يہ جمعرات ان كےروزے كا آخري دن ہوتا ہے اور اسے وہ خميس المائدۃ يعني دسترخوان كي جمعرات كا نام بھي ديتےہيں، جو كہ سورۃ المائدۃ ميں اللہ تعالي كےاس فرمان ميں مذكور ہے:

{عيسي بن مريم عليہ السلام نے دعا كي اے اللہ اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے كھانا نازل فرما كہ وہ ہمارے لئے يعني ہم ميں جو اول ہيں اور جو بعد كے ہيں سب كے لئے ايك خوشي كي بات ہو }المائدۃ ( 114 )

بہت سے مؤرخين نےذكر كيا ہے كہ ان كےان تہواروں ميں بہت عجيب وغريب كام تھےجن ميں درختوں كےپتےجمع كركےانہيں صاف كرنا اور اس سے غسل كرنا اور انہيں آنكھوں ميں ڈالنا شامل ہے، اور مصر كےقبطي كچھ ايام نيل ميں غسل كرتے اور ان كا يہ گمان تھا كہ اس ميں دم درود ہے.

اور ان كےہاں ايسٹر ڈے بڑے روزے كےافطار كا دن ہے اور ان كا يہ گمان تھا كہ ميسح عليہ السلام سولي چڑھنےكے تين يوم بعد كھڑے ہوئے اور آدميوں كو جہنم سے نجات دلائي، اس كے علاوہ كئي ايك خرافات بھي ہيں جن كا ذكر شمس الدين الدمشقي الذھبي رحمہ اللہ تعالي نےكيا ہے كہ: اس دن اہل حماۃ چھ دنوں كےلئے كام كاج چھوڑ ديتے اور انڈوں كو رنگتےاور كيك تيار كرتےہيں، انہوں نے كئي قسم كے فساد اور اختلاط كي اقسام ذكر كي ہيں جو اس وقت كي جاتي تھيں، اوريہ بھي ذكر كيا ہے كہ اس ميں مسلمان بھي شريك ہوتے اور ان كي تعداد عيسائيوں كي تعداد سے تجاوز كرجاتي ہے، اللہ كي پناہ.

ابن الحاج نےذكر كيا ہےكہ: وہ اعلانيہ طورپر فحش كام كرتےہيں اور انہيں كوئي روكنےوالا نہيں، لگتا ہے كہ اسي چيز نے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالي نے اس منكر كےخلاف آواز اٹھائي جو انہوں نےمسلمانوں ميں عيسائيوں كے تہواروں ديني شعار ميں ان كي تقليد كركے پيدا كي، انہوں نے اس ميں سے بہت سي اشياء اپني كتاب الاقتضاء ميں ذكر كي ہيں اور اسي طرح امام ذھبي رحمہ اللہ تعالي نے اپنے رسالہ ميں بھي ذكر كيا ہے جس كا ذكر ابھي كيا گيا ہے.

عيسائي آج تك موسم بہار كا چاند مكمل ہونے كےبعد پہلي اتوار كے دن (22 مارچ سے 25اپريل تك كےدوران ) جشن مناتےہيں اور ارتھوڈكس چرچ كے پيروكا باقي عيسائيوں سے اس جشن كو دير سےمناتےہيں اور يہ عيسائي سال كےميں شعار اور روزے اور ايام كا مكمل موسم ہے.

2 – مسيح عليہ السلام كي عيد ميلاد يورپي لوگ اسے ( كرسمس ڈے ) كا نام ديتےہيں جو كہ پچيس دسمبر كو عام عيسائيوں مناتے ہيں، اور قبطي كے ہاں يہ ( 29 كيھك ) كےموافق آتا ہے اور يہ زمانہ قديم سے منايا جارہا ہے اور كتب تاريخ ميں بھي مذكور ہے: مقريزي كا كہنا ہے كہ:

قاہرہ اور مصر اور مصر كے سب علاقوں ميں ہم نے عيد ميلاد( كرسمس ڈے ) كو بڑے تزك واحتشام سےمناتے ہوئےپايا جس ميں نقش ونگار والي شمعيں فروخت ہوتےہوئےپايا جسے فانوس كا نام ديا جاتا ہے.

عيسائيوں كي يہ عيد ميلاد مولد مسيح كي ياد ميں ہر برس منائي جاتيہے ، اور اس ميں ان كي كئي ايك عبادات اور شعار بھي ہيں اس طرح كہ وہ گرجا گھروں ميں جا كر خصوصي نمازوں كا اہتمام كرتے ہيں، عيد ميلاد كا قصہ ان كي انجيل ، لوقا اور انجيل متي ميں مذكور ہے اور اس كي سب سے پہلي تقريب ( 336 ) ميلادي ميں منائي گئي اور يہ بت پرستي كےشعار سے متاثرہوئي اس طرح كہ رومي روشني اور فصل كاٹنے كےالہ كا جشن منايا كرتے اور جب روميوں كا سركاري مذھب عيسائت بنا تو عيد ميلاد يورپ ميں روميوں كا سب سے اہم جشن اور تہوار بن گيا اور بشب نيكولس يورپي ممالك ميں عيد ميلاد كےتحفے دينے كي علامت بن گيا، پھرخاص كر بچوں كو تحفے دينے كي علامت بشپ نيكولس كي جگہ پوپ نويل نے لے لي ، اور مختلف ممالك ميں بہت سے مسلمان ان شعار اور عادات سے متاثر ہوئے اس طرح كہ پوپ نويل كي علامت والےتحفے مسلمانوں كي دوكانوں اور ماركيٹوں ميں معروف ہوگئے اور كتنےہي گھر ايسے تھے جن ميں يہ تحفے اور ہديہ جات داخل ہوئے اور كتنے ہي مسلمان بچے پوپ نويل اور اس كے ہديہ جات جاننے لگے، لاحول ولا قوۃ الا باللہ.

اس تہوار ميں عيسائيوں كے كئي ايك شعار اور علامتيں ہيں:

فلسطين اور اس كےاردگرد كےعيسائي عيد ميلاد كےدن بيت لحم ميں جمع ہوتے جہاں مسيح عليہ السلام كي پيدائش ہوئي اور نصف رات كو عبادت كرتےہيں اور ان كےشعار ميں تيس نومبر كي قريب ترين اتوار كو جشن منانا ہے جو كہ بشپ انڈريوس كا تہوار ہے اور يہ عيسي عليہ السلام كےقدوم كا پہلا دن ہے، اور يہ تہوار اپنے جوبن پر اس وقت ہوتا ہے جب نصف رات كو بشپ جاگتےہيں جبكہ گرجا گھروں كو سجايا جاتا اور لوگ عيد ميلاد كے ترانے گاتے ہيں اور تہوار كا موسم ( 6 جنوري ) كو ختم ہوجاتا ہے، اور ان ميں سے بعض كرسمس ٹري كےتنے كو جلاتےہيں پھر غير جلےہوئے حصہ كو محفوظ كرليتے ہيں اور اعتقاد يہ ركھتےہيں كہ يہ جلنا نصيب كو كھينچ ليتا ہے، اور يہ اعتقاد برطانيا، فرانس اور اسكنڈنافي ممالك ميں پايا جاتا ہے.

3 – تہوار الغطاس جو كہ 19جنوري اور قبطيوں كےہاں ماہ طوبہ كي گيارہ تاريخ كومنايا جاتا اور ان كےہاں اس كي اصل يہ ہے كہ يحي بن زكريا عليہما السلام جوان كےہاں يوحنا معدان كےنام سے معروف ہيں انہوں نے مسيح عليہ السلام كواردن كي نہرميں بپتسمہ ( عيسائيوں كےہاں بچےكو غسل دينےكي ايك رسم كانا ہے ) ديا تھا اورجب انہيں غسل ديا تو ان سے روح القدس ملے تھے، تواس لئےعيسائي اپني اولاد كو آج تك پاني ميں غسل ڈبوتےاور سب لوگ جمع ہوكراس ميں اترتےہيں.

مسعودي نےاس تہوار كےمتعلق ذكر كيا ہے كيونكہ يہ تہوار اس كےدور ميں بہت تزك احتشام طريقہ سےمصر كےاندرمنايا جاتا تھا، جس ميں ہزاروں كي تعداد ميں عيسائي اور مسلمان جمع ہو كر دريائے نيل ميں غوطےلگاتےاور ان كا گمان ہے كہ اس طرح بيماريوں سے محفوظ رہا جاتا اور بطورعلاج منترہے اور اسي مفہوم كےمطابق آرتھوڈكس چرچ كےپيروكاريہ تہوار مناتےہيں ليكن كيتھولك اورپروٹسٹينٹ چرچ كےپيروكار اس تہوار كا اور مفہوم ليتےہيں، وہ مفہوم يہ ہےكہ وہ مشرق سےآنےوالے تين اشخاص جنہوں مسيح عليہ السلام كو رضاعت مہيا كي ان كي ياد ميں يہ تہوار مناتےہيں.

اور الغطاس اصل ميں اغريقي كلمہ ہے جس كا معني ظھور ہے اوريہ ايك ديني اصطلاح ہے جو ظھور غير مرئي سےمشتق اور توراۃ ميں بيان ہوا ہے كہ اللہ تعالي نے موسي عليہ السلام كے لئے ايك جلےہوئےدرخت كي شكل ميں تجلي فرمائي، ( اللہ تعالي ان كےقول بلندوبالا اور پاك ہے ) .

سال نوكا تہوار: يہ تہوار ميلادي سال كےآخرميں منايا جاتا ہے، اوراس دور ميں اسےبہت اہميت حاصل ہے، وہ اس طرح كہ عيسائي ممالك اوربعض اسلامي ممالك ميں بھي يہ تہوار منايا جاتاہے، اور يہ تہوار زمين كي ہر جگہ سے باآواز اور باتصوير اسے نشر كيا جاتا ہے اور اخبار اورميگزين اسے صفحہ اول پر جگہ ديتےہيں اور فضائي چينل بھي اسےبڑي اہميت ديتےہيں.

اور اس وقت يہ ملاحظہ كيا جارہا ہے كہ بہت سے مسلمان لوگ جن كے ملكوں ميں يہ عيسائي تہوار نہيں منايا جاتا وہ اس تہوار ميں شركت كے لئے عيسائي ممالك جاتےہيں اور اس ميں ہونےوالے فحش اورحرام كاموں سے فائدہ اٹھانے كي كوشش كرتےہيں اوروہ اس گناہ اور برائي سے غافل ہيں جوكفار كے شعار ميں پائي جاتي ہے.

( 31 ديسمبر ) كےبارہ ميں عيسائيوں كےعجيب وغريب اور باطل اعتقادات اور خرافات پر مبني ہيں اوريہ تہوار بھي اسي طرح خرفات سےبھرا ہوا ہے جس طرح باقي تہواروں ميں خرافات پائي جاتيں ہيں.

اوريہ اعتقادات نئي ترقي ( حضارۃ ) كےمرہون منت ہيں اور ان كےپيدا كردہ ہيں جواپنےآپ كو ترقي يافتہ اور شہري كہتےہيں اور ہماري قوم كے ان منافق صفت لوگوں كےخيالات ہيں جوا