بسم اللہ الرحمن الرحیم
262:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
مسرت کے
بتاریخ : 21/ ربیع الآخر 1436 ھ، م 10،فروی 2015 م
عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ، فَاضْطَجَعَ عَلَى الفِرَاشِ، وَحَوَّلَ وَجْهَهُ، وَدَخَلَ أَبُو بَكْرٍ، فَانْتَهَرَنِي وَقَالَ: مِزْمَارَةُ الشَّيْطَانِ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ: «دَعْهُمَا»، فَلَمَّا غَفَلَ غَمَزْتُهُمَا فَخَرَجَتَا . (صحيح البخاري:949 ، العيدين – صحيح مسلم:892 ، العيدين)
ترجمہ : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے [ وہ عید کا دن تھا ] میرے پاس [انصار کی ] دو بچیاں بیٹھی [دف بجا بجا کر ] جنگ بعاث کے موقعہ پر کہے گئے اشعار پڑھ رہی تھیں [ وہ اچھی طرح گانا نہیں جانتی تھیں ] نبی کریم ﷺ لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، مجھے ڈانٹا اور کہا : شیطان کی آواز [گانا] رسول اللہ ﷺ کے پاس ؟ [ یہ کیا ہے ]؟ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے [اپنا چہرہ کھولا ]، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : انہیں چھوڑ دو [ ہر قوم کے لئے عید کا دن ہوتا ہے جس میں وہ خوشیاں مناتے ہیں اور یہ ہماری عید ہے ]، حضر عائشہ فرماتی ہیں کہ جب ہم نے دیکھا کہ حضرت ابو بکر ادھر سے غافل ہوئے تو لڑکیوں کو نکل جانے کا اشارہ کردیا اور باہر نکل گئیں ۔ { صحیح بخاری ، صحیح مسلم } ۔
تشریح : انسان کے اندر اللہ تعالی نے جو مختلف جذبات رکھے ہیں ان میں سے ایک مسرت و خوشی بھی ہے ، مسرت و خوشی دل کی اس لذت کا نام ہے جو کسی محبوب چیز کے حاصل ہونے یا ناپسندیدہ چیز کے دور ہونے سے دل میں پیدا ہوتی ہے ، جس کا اثر انسان پر یہ ہوتا ہے کہ وہ ہنسنے لگتا ہے ،اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ جاتی ہے ، چہرے پر تازگی اور بشاشت کے آثار رونما ہوتے ہیں حتی کہ بسا اوقات فرط مسرت میں وہ رونے بھی لگتا ہے ۔
یہ خوشی کبھی مشروع ہوتی ہے اور کبھی غیر مشروع ، مال و دولت کے حصول ، علم و فضل کی بازیابی ، عہدہ و منصب پر فائز ہونا ، شادی بیاہ کے موقعے اور عید و تہوار کی آمد پر خوش ہونا مشروع خوشی ہے ، اسی سلسلے میں سب سے اہم خوشی کا موقعہ اعمال صالحہ کی ادائیگی اور ان کے لئے اسباب کی فراہمی کی خوشی ہے : قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِكَ فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِمَّا يَجْمَعُونَ (يونس:58)آپ کہئے کہ بس لوگوں کو اللہ تعالی کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہئے ، وہ اس سے بدر جہا بہتر ہے جو وہ جمع کررہے ہیں ۔
غیر مشروع خوشی یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی نافرمانی کے کاموں میں خوشی ہو ، یا کسی مشروع خوشی کے موقعہ پر حد سے تجاوز کرجائے اور آداب مسرت کو ملحوظ نہ رکھے ، لہذا ضروری ہے کہ ہر شخص یہ معلوم کرے کہ آداب مسرت کیا ہیں ؟
آداب مسرت:
[۱] خوشی کا جو سبب بن رہا ہے اس کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کی جائے ، نہ سبب کی طرف کی جائے ، کیونکہ کسی بھی چیز کا سبب پیدا کرنے والا اللہ تعالی ہے ، اور نہ ہی اس کی نسبت اپنی چالاکی وہشیاری سے کرے ۔ وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ( النمل:53) تمہیں جو نعمتیں بھی حاصل ہیں وہ سب اللہ تعالی کی طرف سے ہیں ۔ مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ (النساء:79) تجھے جو بھلائی ملتی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ۔
صلح حدیبیہ کے موقعہ پر رات کو بارش ہوئی تو اس کی صبح فجر کی نماز کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم ہے کہ تمہارے رب نے کیا کہا ؟ صحابہ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی نے کہا کہ میرے کچھ بندوں نے اس طرح صبح کی ہے کہ وہ مجھ پر ایمان لائے ہیں اور کچھ نے صبح ہوتے ہی کفر کیا ہے ، جس نے یہ کہا کہ ہمیں اللہ تعالی کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ملی وہ مجھ پر ایمان لایا اور ستارے کے ساتھ کفر کیا ، اور جنہوں نے یہ کہا کہ ہمیں فلاں فلاں ستاروں سے بارش ملی ہے تو انہوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لائے ۔
{صحیح بخاری :846 – صحیح مسلم :71 بروایت زید بن خالد } ۔
[۲] اللہ تعالی کا شکر بجا لائے : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کوکوئی ایسی خبر پہنچتی جو باعث مسرت ہوتی تو آپ پڑھتے : الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات ۔ {سنن ابن ماجہ : 3803} ۔ سب تعریفیں اس اللہ کے لئے جس کے فضل و انعام سے نیک کام اور مقاصد پورے ہوتے ہیں ۔
[3]سجدہ شکر بجالائے : اگر خوشی کا سبب کوئی اہم ہو یا کوئی اچھی خبر ہو تو سجدہ شکر بجالانا چاہئے ۔ نبی کریم ﷺ کی یہ سنت مبارکہ رہی ہے ۔ نبی ﷺ کو جب کوئی خوشی کی خبر ملتی تو اللہ تعالی کے شکریہ کے طور پر فورا سجدے میں گر پڑتے ۔ { سنن ابوداود :27774 – سنن الترمذی : 1578 ، عن ابی بکرہ }۔
[۴] تکبیر کہے [ اللہ تعالی کی بڑائی بیان کرے ] : صحیح بخاری :3348 میں ہے کہ جب نبی ﷺ نے صحابہ کو یہ اطلاع دی کہ ” مجھے امید ہے کہ تم جنت میں ، ایک چوتھائی ہوگے ، پھر فرمایا : مجھے امید ہے کہ تم جنت میں ایک تہائی ہوگے ، پھر فرمایا : مجھے امید ہے کہ تم آدھی جنت کے وارث بنو گے تو صحابہ کرام ہر بار ” اللہ اکبر ” کہتے رہے ۔
غزوہ بدر کے موقعہ پر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جب ابو جہل کے قتل کی خبر آپ ﷺ کو دی تو آپ نے تین بار فرمایا : اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں { واقعۃ ابو جہل قتل ہوگیا ؟ } میں نے جواب دیا ، اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں وہ قتل ہوگیا ، تو آ پ ﷺ نے کہا : “اللہ اکبر ، الحمد للہ الذی صدق وعدہ نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ” ، چلو مجھے اسے دکھاو ۔ { مسند احمد :1/444 }
[۵] تواضع و انکساری سے کام لے : نبی کریم ﷺ فتح مکہ کے موقعہ پر جب مکہ مکرمہ میں داخل ہورہے تھے تو آپ ﷺ کا سر تواضع و عاجزی سے جھکا ہوا تھا ۔ { سیرۃ ابن کثیر :3/555 }