بسم اللہ الرحمن الرحیم
297:حديث نمبر
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
مسلم پرسنل لا ء
بتاریخ : 17/ محرم 1438 ھ، م 18، اکتوبر 2016 م
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” إِنَّ لِلَّهِ أَقْوَامًا اخْتَصَّهُمْ بِالنِّعَمِ لِمَنَافِعِ الْعِبَادِ، وَيُقِرُّهَا فِيهِمْ مَا بَذَلُوهَا، فَإِذَا مَنَعُوهَا نَزَعَهَا عَنْهُمْ وَحَوَّلَهَا إِلَى غَيْرِهِمْ “
( الطبراني الأوسط : 516/2 – شعب الإيمان : 7662 ، قضاء الحوائج : 5)
ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تبارک و تعالی بعض قوموں کو نعمتوں سے نوازتا ہے تاکہ اسے اللہ کے بندوں کے لئے مفید کاموں میں صرف کریں ، تو اللہ تعالی ان نعمتوں کو اس قوم میں اس وقت تک باقی رکھتا ہے جب تک وہ لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں لیکن جب ان نعمتوں کو لوگوں سے روک لیتے ہیں تو اللہ تعالی ان نعمتوں کو ان سے چھین کر دوسری قوم کو دے دیتا ہے ۔ { الطبرانی الاوسط ، شعب الایمان ، قضاء الحوائج } ۔
تشریح : اس دنیا میں ہمیں جتنی بھی نعمتیں حاصل ہیں وہ سب اللہ تعالی ک دین ہیں اور بڑی خوبی یہ کہ ان میں اکثر نعمتیں ہمیں بغیر طلب اور کوشش کے ملی ہیں ۔ وَمَا بِكُمْ مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِتمہیں جو بھی نعمت بھی ملی ہے وہ اللہ تعالی کی دین ہے ۔
ان نعمتوں کے عوض اللہ تعالی ہم سے صرف یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنے قلب و قالب سے ان نعمتوں کا شکریہ ادا کریں اور ان نعمتوں کے دینے والے منعم حقیقی ، اللہ رب العزت کے فرامین پر عمل پیرا ہوں ، پھر اگر ہم نے ان نعمتوں کا شکریہ ادا کیا تو اللہ رب العزت کی طرف سے ہمیں مزید نعمتوں کا وعدہ ہے برخلاف اس کے اگر ہم نے ان نعمتوں کی ناشکری کی تو اس پر نہ صرف نعمتوں کے چھین جانے بلکہ دردناک عذاب کی دھمکی ہے : وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَئِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (7)ابراہیم
اور جب تمھارے رب نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر تم شکر کرو گے تو تمہیں اور زیادہ دوں گا ااور اگر ناشکری کروگے تو پھر میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے ۔
چنانچہ ماضی و حال کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی کسی قوم نے حتی کہ کسی فرد نے اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا اور نہ ہی وہ لوگ منعم حقیقی کے شکر گزار رہے تو اللہ تعالی نے ان نعمتوں کو ان سے چھین لیا ہے اور انہیں ذلت و رسوائی اور پستی و زوال کے حوالے کردیا ہے ، جیسا کہ کفار قریش سے متلق ارشاد فرماتا ہے :
ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَأَنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (53)الانفال
ایسا اس لئے ہوتا ہےکہ اللہ تعالی کا یہ طریقہ ہے کہ جب کسی قوم کو نعمت سے نوازے تو وہ اس نعمت کو اس وقت تک ان سے نہیں بدلتا جب تک وہ قوم خود
ا پنے طرز عمل کو بدل نہیں دیتی اور اللہ تعالی سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
یعنی قریش کو ہر قسم کی نعمتیں ملیں لیکن چونکہ انہوں نے ان نعمتوں کی قدر نہ کی اس لئے انہیں یہ برے دن دیکھنے پڑے جو غزوہ بدر کے موقعہ پر پیش آئے ، انہیں اللہ تعالی نے امن میں رکھا لیکن انہوں نے اللہ تعالی کے نیک بندوں کو خوفزدہ کیا اور انہیں مارا پیٹا ، اللہ تعالی نے انہیں خانہ کعبہ کی تولیت بخشی لیکن انہوں نے اللہ کے نیک بندوں کو وہاں نماز تک پڑھنے سے روکا ، اللہ تعالی نے انہیں ملت ابراہیمی یعنی توحید کی نعمت بخشی لیکن انہوں نے حضرت ابراہیم کے بنائے ہوئے توحید کے گھر میں تین سو ساٹھ بتوں کو لاکر رکھ دیا ، اللہ تعالی نے انہیں رحمۃ للعالمین ، خاتم النبین ، سید المرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نعمت عطا کی لیکن انہوں نے ان کی پیروی کے بجائے نا فرمانی اور عناد کا راستہ اختیار کیا ، لہذا وہ یقینا اس بات کے حقدار ہیں کہ ان کے امن کو خوف و قتل اور ان کی آسودگی کو بھوک و پیاس میں بدل دیا جائے بلکہ قریب ہے کہ ان کا شہر بھی ان سے چھین لیا جائے ، اور ہو ا بھی ایسا ہی ۔
اسی طرح متحدہ ہند کے مسلمانوں کی اللہ تعالی نے اس خطہ ارض کی حکومت عطا کی لیکن اس حکومت کو خدمت دین میں لگانے کے بجائے اپنی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنایا تو حکومت ان سے چھین لی گئی ، اللہ تعالی نے انہیں اپنے دین پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی لیکن احکام الہی پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو آہستہ آہستہ ان سے یہ آزادی جاتی رہی ، سرکاری محکموں میں، خصوصا پولیس اور فوج کے محکمہ میں داڑھی کی ممانعت ، گائے کی قربانی پر سزا اور مسلم پرسنل لا میں تبدیلی اس کی واضح مثال ہے ، لہذا اگر چاہتے ہیں کہ ان امور میں اللہ تعالی کی طرف سے آسانی ہو تو اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں ، سچ فرمایا اللہ تعالی نے :إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللَّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالٍ (11)الرعد
اللہ تعالی کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے حالات کو نہ بدلیں ، اور اللہ تعالی جب کسی قوم پر مصیبت ڈالنے کا ارادہ کرلے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا ، نہ ہی اس کے مقابلے میں اس قوم کا کوئی مددگار ہوسکتا ہے ۔
گویا اللہ کی دی ہوئی کسی بھی نعمت کے بقا و دوام بلکہ اس پر مزید کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اپنے قلب و قالب سے اس کا شکریہ ادا کرے ، یہی چیز زیر بحث حدیث میں بیان ہوئی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی لوگوں کو جب اپنی نعمت سے نوازتا ہے وہ نعمت خواہ مال کی نعمت ہو یا علم کی نعمت ، جاہ منصب کی نعمت ہو یا آزادی رائے کی نعمت، تو ان سے یہ بھی مطالبہ کرتا ہے کہ اس نعمت کو اللہ تعالی کے بندوں سے نہ روکیں بلکہ ” احسن کما احسن اللہ الیک ” کے اصول پر قائم و دائم رہیں ، ورنہ یہ نعمت تم سے بہت جلد چھین لی جائے گی اور کسی اورقوم کے حوالے کردی جائے گی ۔
فائدے۔1—ہر نعمت اللہ تعالی کی دین ہے لہذا اس کا شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ 2—عقلمندی یہ ہے کہ اللہ تعالی کی نعمتوں کا شکر ادا کی جائے،
3—کسی بھی نعمت کی نا شکری اس نعمر کے جاتے رہنے کا سبب ہے۔ 4—نعمتوں کی اصل شکر گزاری اس سے متعلق فرامیں الہی کا بجا لانا ہے۔