(معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی)/حديث نمبر :191

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :191

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ : 11 – 12 محرم 1433ھ، 07 – 08 ديسمبر 2011م

(معاویہ رضی اللہ عنہ کاتب وحی)

حديث :

عن ابن عباس رضي الله عنهما قال : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث إلى معاوية ليكتب له , فقال : إنه يأكل , ثم بعث إليه فقال : إنه يأكل , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا اشبع الله بطنه .

مسند ابو داود الطیالسي :2746 ۔صحیح مسلم : 2604 الادب ۔ مسند احمد 1ص 335، 338 ۔

تشریح :

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے معاویہ کو بلانے کیلئے بھیجا تا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے کچھ لکھیں ، حضرت عبد اللہ بن عباس نے آکر بتلایا کہ وہ کھارہے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حضرت عبد اللہ بن عباس کو دوبارہ بھیجا تاکہ بلاکر لائیں ، حضرت عبد اللہ بن عباس نے بتلایا کہ وہ کھا رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ، اللہ اسکے پیٹ کو آسودہ نہ کرے ۔ {مسند الطیالسی ، صحیح مسلم ، مسند احمد ، الفاظ الطیالسی کے ہیں }

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو شریعت اسلام میں ایک نرالا مقام حاصل ہے بلکہ اہل سنت وجماعت کے نزدیک ان سے محبت ، انکی قدرو قیمت کا اعتراف اسلامی عقیدے کا ایک اہم باب ہے چنانچہ امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ اپنے عقیدہ طحاویہ میں لکھتے ہیں : ہم اصحاب رسول علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں اور ہم ان میں سے کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ہی کسی سے براءت کا اظہار کرتے ہیں ، ہم اس سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے بغض رکھتا ہے ، ہم اس سے بھی بغض رکھتے ہیں جو انکا نام اچھے انداز میں نہیں لیتا ، ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا تذکرہ انتہائی محبت بھرے انداز سے کرتے ہیں ، صحابہ کی محبت ، دین ، ایمان اور احسان کی علامت ہے اور ان سے بغض کفر ونفاق اور سر کشی کی علامت ہے ، {عقیدۃ طحاویۃ مترجم : 93 }

اور ایسا کیوں نہ ہو جبکہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ہے : میرے صحابہ کے ساتھ احسان سے پیش آو ” {سنن ابن ماجہ }

جب میرے صاحبہ کا ذکر آئے تو خاموشی اختیا کرو{الصحیحہ}

لیکن اسکے باوجود اپنے کو مسلمان کہنے والی ایک جماعت نے صحابہ بلکہ کبار صحابہ کو ملعون کہا ، ان پر الزام تراشی کی بلکہ ان پر نفاق و کفر کا فتوی لگا یا ۔ العیاذ با للہ ۔ اور بات یہاں تک پہنچی کہ اہل سنت وجماعت سے منسلک بعض حضرات حتی کہ بعض اہل علم بھی اسلام دشمن تحریکوں کی زہر افشانی سے متا ثر ہو کر بعض ضعیف اور غیر مستند تاریخی روایت کا سہارا لیکر اور بعض صحیح حدیثوں کے مفہوم و مقصد سے غفلت برت کر بعض صحابہ کے بارے میں غلط تصورات رکھ کر لوگوں میں انکی ترویج کرنے لگے ، انہیں صحابہ میں سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور انکے بارے میں وارد زیر بحث حدیث بھی ہے جسے نہ سمجھ کر بعض لوگوں نے حضرت معاویہ پر طعن و تشنیع کی ہے ، لیکن اصحاببصائر علماء اہل سنت وجماعت کے نزدیک اس حدیث کا کیا مفہوم ہے اسے واضح کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ۔

بعض فرقوں نے اس حدیث کو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن و تشنیع کیلئے بنیاد بنایا ہے ، حالانکہ اسمیں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے انکا مقصد پورا ہوسکے ، نیز یہ کیسے ممکن ہے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب تھے، اسی لئے حافظ ابن عسا کررحمہ اللہ نے {16/349/2}لکھا کہ حضرت معاویہ کی فضیلت میں وارد یہ سب سے صحیح حدیث ہے ۔

بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ غیر مقصود بددعا ہے بلکہ یہ اس قبیل سے ہے جو اہل عرب میں بلا قصد وارادہ انکی زبان پر جاری ہو جاتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض زوجہ محترمہ سے متعلق فرمایا تھا ” عقری حلقی” اللہ اسکو زخمی کرے اور اسکے حلق میں در پیدا ہو {یعنی ہلاک وبرباد ہونے کی دعا } {صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت عائشہ }

نیز فرمایا : ” تربت یداہ” تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں {صحیح بخاری وصحیح مسلم بروایت ام سلمہ }، یا حضرت انس سے مروی ذیل میں مذکور حدیث جسمیں یہ فرمایا :” لا کبر سنک” تو کبھی بھی بڑی نہ ہو وغیرہ ۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الفاظ آپ کی زبان سے بتقاضائے بشریت صادر ہوئے ہوں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بہت ساری حدیثوں میں اسکی وضاحت کردی ہے ، انہیں میں سے ایک حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دو آدمی حاضر ہوئے ، آپ سے کچھ بات کی جسکا مجھے علم نہیں ہے البتہ آپ اس سے سخت ناراض ہوئے جسکی وجہ سے آپ نے ان پر لعنت بھیجی اور برا بھلا کہا ، جب دونوں چلے گئے تو میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ” یہ دونوں تو ہر قسم کے خیر سے محروم ہو گئے ، آپ نے فرمایا :وہ کیوں؟ میں نے جواب دیاکہ آپ نے ان پر لعنت بھیجی اور انھیں برا بھلا کہا ، آپ نے فرمایا : تجھے معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے کیا شرط لگائی ہے ؟ میں نے دعا کی ہے :اے اللہ ” میں بھی ایک بشر ہوں ، لہذا جس مسلمان پر میں لعنت بھیجوں ، یا برا بھلا کہوں تو تو اسکو اسکیلئے گناہوں کی معافی اور اجر و ثواب کا سبب بنا ،

امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اور زیر بحث حدیث کو ایک ہی باب میں ذکر کیا ہے باب : جس شخص پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لعنت بھیجیں ، برا بھلا کہیں یا اسے بد دعا دیں اور وہ اسکا مستحق نہیں ہے تو یہ لعنت وگالی اسکے لئے گناہوں کی معافی ، رحمت اور اجر کا باعث بنے گی ۔

پھر اسی باب میں حضرت انس بن مالک کی یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ حضرت انس کی والدہ حضرت ام سلیم کے یہاں ایک یتیم بچی برورش پارہی تھی ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا : “ارے تو بڑی ہو گئی ، اللہ کرے کہ تو بڑی نہ ہو”۔ چنانچہ یہ سنکر وہ بچی روتی ہوئی ام سلیم کے پاس پہنچی ، ام سلیم نے رونے کا سبب پوچھا تو اس نے بتلا یا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عمر یا میرے قد کے نہ بڑھنے کی بد دعا کی ہے ، حضرت ام سلیم نے جلدی جلدی اپنی چادر لی اور اسے لپیٹتے ہوئے خدمت نبوی میں حاضر ہوئیں ، اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ” کیا آپ نے میری یتیم بچی پر بد دعا کی ہے ؟ آپ نے فرمایا “ام سلیم وہ کیسے ؟ ام سلیم نے کہا : میری بچی کہہ رہی ہے کہ آپ نے اسکی عمر یا اسکے قد کے بڑے نہ ہونے کی بددعا دی ہے ، یہ سنکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا : “اے ام سلیم : کیا تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے یہ شرط لگالی ہے اور دعا کی ہے کہ اے میرے رب میں بھی ایک بشر ہی ہوں جیسے ایک بشر کبھی خوش ہوتا ہے ویسے میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جیسے ایک بشر کبھی غصہ ہوتا ہے ویسے ہی مجھے بھی غصہ آتا ہے لہذا اگر کسی امتی کو میں بددعا دوں اور اسکا مستحق نہیں ہے تو اس بد دعا کو اسکے گناہوں کا کفارہ اور قیامت کے دن اپنی قربت کا سبب بنادینا” ۔ پھر امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث کے بعد حضرت معاویہ سے متعلق زیر بحث حدیث کو رکھا ہے اور اسی پر اس باب کا خاتمہ کیا ہےجس سے اسطرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں حدیثیں ایک باب کی ہیں اور سب کا مفہوم ایک ہی ہے کہ جس طرح یتیم بچی سے متعلقہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بد دعا اسکے لئے باعث ضرر نہیں بلکہ باعث تقرب الہی اور کفارہ ہے اسی طرح حضرت معاویہ پر کی گئی یہ بد دعا بھی اسی قبیل سے ہے ۔

نیز امام نووی رحمہ اللہ صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ حضرت معاویہ پر کی گئی اس بد دعا کا دو جواب ہے :

{1} یہ بلا قصد ونیت زباں پر جاری کلام ہے ۔

{2} انکے تاخیر کی یہ سزا تھی اور امام مسلم رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہی سمجھا کہ معاویہ بددعا کے مستحق نہ تھے لہذا اس حدیث کو اس باب میں رکھا ، امام مسلم کے علا وہ دیگر علماء نے اس حدیث کو حضرت معاویہ کے فضائل میں ذکر کیا ہے کیونکہ حقیقت میں حضرت معاویہ کیلئے یہ دعا ہے ،

امام ذھبی نے بھی اسی دوسرے معنی کی طرف اشارہ کیا ہے چنانچہ سیر اعلام النبلاء میں لکھتے ہیں : یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت معاویہ کی اس میں فضیلت کا بیان ہےاسلئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے اللہ میں جس کسی پر لعنت بھیجوں یا برا بھلا کہوں تو اسے اسکے لئے طہارت و رحمت بنا دے {سلسلہ الآحادیث الصحیحہ 1 ص 165/167 }

فوائد :

{1} حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اہل سنت و جماعت کے نزدیک صحابی رسول، کاتب رسول اور صاحب منقبت صحابی ہیں ، جنھیں بر ابھلا کہنا نفاق و زندقہ ہے ۔

{2} کسی بھی حدیث کے مفہوم کو متعین کرنے اور اسکے مدلول کو جاننے کے لئے صاحب بصیرت اہل علم کی طرف رجوع ضروری ہے ۔

{3} متواتر حدیثوں اور قرآن مجید کی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں لہذا بشریت کے عوارض جیسے غصہ ، رضا ، وغیرہ آپ کو لاحق ہوتے ہیں ۔

{4} آپ کا بشر ہونا آپ کے مقام و مرتبہ کو نہیں گھٹا تا بلکہ بشر ہونے باوجود آپ تمام مخلوقات میں سب سے افضل اور سب سے ارفع ہیں ۔