میں بھی مسئول ؟ / حديث نمبر: 267

بسم اللہ الرحمن الرحیم

267:حديث نمبر

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

میں بھی مسئول ؟

بتاریخ : 11/ جمادی الآخر 1436 ھ، م  31،مارچ  2015 م

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «أَلاَ كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى أَهْلِ بَيْتِ زَوْجِهَا، وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَعَبْدُ الرَّجُلِ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ»  (  صحيح البخاري : 7138 ، الأحكام – صحيح مسلم : 1829 ، الإمارة )

ترجمہ  : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : یاد رکھو  تم میں کا ہر شخص  ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی نگرانی میں  دی گئی  چیزوں  سے متعلق  سوال ہوگا ، چنانچہ  امام اعظم  جو لوگوں کا حاکم  ہے وہ ذمہ دار ہے اور اس  سے اس کی ذمہ داری میں دی گئی  چیزوں سے متعلق سوال کیا جائے گا ، مرد اپنے  اہل خانہ  کا نگران  ہے اس سے  اس کی نگرانی  میں دی گئی  چیزوں سے متعلق  سوال کیا جائے گا ، عورت  اپنے شوہر  کے گھر والوں  اور اس کی اولاد  پر نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال کیا جائے گا ، آدمی کا غلام  اپنے آقا کے مال  پر نگران ہے اور اس سے  اس کے مال  سے متعلق  سوال کیا جائے گا ، یاد رکھو تم سب کے سب ذمہ دار ہو اور تم سب  سے اس کی ذمہ داری سے متعلق سوال کیا جائے گا۔ صحیح بخاری وصحیح مسلم۔

تشریح :  دنیا  دار العمل ہے اور ہر شخص  کو اس کی بساط کے مطابق  عمل کا مکلف  بنایا گیا ہے ،  پھر جو شخص  اپنے علم  ، منصب  اور مال و جاہ  کے لحاظ سے  جس قدر  وسعت  کا حامل ہے اس کی ذمہ داری بھی اسی قدر وسیع ہے ، لہذا  اس سے مطالبہ ہے کہ  اپنی ذمہ داری  امانت داری اور دیانتداری  سے ادا کرے، کیونکہ  اس کے عمل  کا سلسلہ  صرف  اس دنیا تک نہیں  ہے  بلکہ قیامت  کے دن  ان سے متعلق  سوال ہوگا ، بلکہ اس سوال کا دائرہ  اس قدر وسیع  ہوگا کہ ہر ایک فرد بشر سے اورہر ایک چیز سے متعلق سوال ہوگا: فَوَرَبِّكَ لَنَسْأَلَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ (92) عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( 92-93 الحجر )

قسم ہے تیرے رب کی  ہم ان سب سے ضرور باز پرس  کریں گے  ، ہر اس چیز  کی جو وہ کرتے تھے  ۔  حتی کہ  رسولوں سے بھی سوال ہوگا : فَلَنَسْأَلَنَّ الَّذِينَ أُرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَلَنَسْأَلَنَّ الْمُرْسَلِينَ۔6 الأعراب۔پھر ہم ان لوگوں  سے ضرور پوچھیں گے جن  کے پاس  رسول بھیجے  گئے ہیں اور ہم  سے رسولوں  سے بھی  ضرور پوچھیں گے ۔زیر بحث  حدیث میں بھی نبی ﷺ نے اسی حقیقت  کو واضح کیا ہے ، چنانچہ  آپ ﷺ  نے فرمایا کہ تم  میں کا ہر شخص  “راعی ” یعنی ذمہ دار ہے ، راعی  اس شخص کو کہتے ہیں  جو کسی چیز  کی  حفاظت  پر مامور  ہو اور جس چیز کی حفاظت پر مامور    وہ اس کی امانت  ہے جس کے  صلاح و فساد کا ذمہ دار  بھی  وہ  ہے، گویا امت کے ہر فرد کے زیر نگرانی  کچھ چیزیں رکھی گئی ہیں جن کی رعایت  و حفاظت  کے وہ ذمہ دار ہیں  ، اگر  اس میں  کوئی کوتاہی  کرتا یا خیانت سے کام لیتا ہے  تو قیامت کے دن  اس کا جواب دہ ہوگا جیسا کہ  ایک اور حدیث میں  وارد ہے کہ اللہ تعالی ہر شخص  سے اس کی ذمہ داری میں دی گئی  چیزوں  سے متعلق  سوال کرے گا کہ اس کی حفاظت  کی یا اسے ضائع کردیا  حتی کہ مردسے اس کے  اہل خانہ

کے بارے میں   سوال کیا جائے گا ۔  سنن نسائی الکبری  ، صحیح  ابن حبان ، بروایت  انس  ۔ اس ذمہ داری  میں  کوتاہی پر نہ صرف باز پرس ہوگی بلکہ  ایسا شخص سخت سے سخت  عذاب کا مستحق ٹھہرے  گا ، ارشاد نبوی ہے : جس شخص  کو بھی  اللہ تعالی نے کسی رعیت  کی ذمہ داری  دی ہے  اگر وہ اس حال میں  مرتا ہے کہ اپنے رعیت کے ساتھ  خیانت کرنے والا تھا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پائے گا۔ {صحیح بخاری  و صحیح مسلم ، بروایت  معقل بن یسار }۔ پھر  نبی ﷺ بطور  مثال  کے اس  دنیا  میں سب سے بڑی ذمہ داری اور  سب سے  چھوٹی  ذمہ داری اور درمیان  میں دو اہم ترین ذمہ داریوں  کا بھی ذکر فرمایا  ، چنانچہ  حاکم وقت سے لے کر  گھر کے ایک زر خرید غلام تک کو نبی ﷺ  نے ذمہ دار ٹھہرایا  اور  جو کچھ ان  کے  ذمہ ہے اس کو بھی واضح کردیا  ، چنانچہ  حاکم وقت کی ذمہ داری  سب سے بڑی ہے  ، پورا ملک اور ساری رعایا  اس کی ذمہ داری میں ہیں ، لہذا  چاہئے کہ ان کی درمیان  عدل سےکام لے ، ان کی ضروریات  کو پوری کرے ،ظلم  و جور  کو ان سے دور  رکھے ، ان کی بود و یاس  ، خرد و نوش  اور علاج  و معالجہ کا  انتظام کرے ان کے درمیان  امن  وامان قائم  کرے،  اور  سب سے  اہم  یہ کہ اللہ کی مخلوق  پر اللہ کا نظام نافذ  کرے، شرک و بدعات اور کفر و فساد کے اڈوں کو زائل کرے ۔ غلام کی ذمہ داری  ہے کہ اپنے  آقا  کے مال کی حفاظت  کرے  ، اس کی خدمت  میں کوتاہی  سے کام نہ لے  ، اس کے  اہل خانہ  کے بارے میں امانت داری  کا ثبوت  دے  اور آقا کی  کی کسی بھی  چیز کو ضائع ہونے  کا سبب نہ بنے ۔ مرد اور صاحب خانہ کی ذمہ داری   یہ ہے کہ  اس کی زیر  رعایت  و تربیت  جتنے فرد ہیں خواہ  مرد ہو کے عورت ، بیوی ہے بچے ، بہن ہیں یا بھائی  ، پھوپھی  وخالہ  ہر ایک کے کھانے ، پہننے ، حسن سلوک  اور حتی کہ ان کی تعلیم  کا ذمہ داری ہے : يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (6- التحريم ) اے ایمان والو  اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال  کو آگ سے بچاو،   وہ آگ جس کے ایندھن  لوگ اور پتھر ہوں گے ۔ بیوی بھی  اپنے شوہر کی اولاد  ، گھر ، گھر میں موجود  سامان  اور افراد کی ذمہ دار ہے  ، نہ ہی کسی کے حق میں  کمی  کرے اور نہ ہی شوہر کے مال میں فضول  خرچی  اور بے جا خرچ سے کام لے ۔  اس طرح  نبی ﷺ  نے معاشرے کے ہر فرد کو ذمہ دار  ٹھہرایا  اور اس کی اپنی ذمہ داری یاد  دلائی  ، حتی کہ  اگر کوئی  شخص  تنہا زندگی  بسر کرتا ہے  تو وہ بھی بہت  سی چیزوں  پر نگران  ہے جس میں  سب سے اہم چیز   اس کی صحت ، اس کا دین  اور اس کے اعضاء ہیں،   وہ   ذمہ دار  ہے کہ اپنے  اعضاء کو احکام الہی  کی پابندی اور منہیات  سے دور رہنے پر مسخر  کرے، اپنی عقل  و سمجھ اور دل و جان  کو صحیح  عقیدے اور سچے  خیالات  کا پابند  بنائے  ، چنانچہ  یہی حدیث  طبرانی  اوسط و غیرہ  میں حضرت  انس سے مروی ہے جس کے آخر میں ہے کہ آپ ﷺ  نے لوگوں  کو مخاطب  کرکے فرمایا کہ : لہذا اس سوال کا جواب تیار کرلو  صحابہ نے سوال کیا کہ  یا رسول اللہ ! اس کا جواب کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : نیک  کام کرو  ۔ { فتح الباری : 12/113 } ۔ سچ فرمایا  اللہ تعالی نے : إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (36- الإسراء )  بلا شبہ کان ، آنکھ اور دل ان تمام سے سوال کیا جائے گا ۔

فوائد :

  • اسلامی معاشرے کا ہر فرد  ذمہ دار ہے اور اس کی ذمہ داری سے متعلق  سوال  ہوگا ۔
  • اسلامی شریعت  ایک کامل شریعت ہے جو اسلامی  معاشرے  کے ہر پہلو سے متعلق مفید معلومات فراہم کرتی ہے ۔

گھریلو  زندگی  کے خوشگوار  رکھنے  میں  میاں  وبیوی  دونوں ہی شریک  ہیں ۔