بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :194
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 02 – 03 صفر 1433ھ، 28 – 29 ديسمبر 2011م
نحوست کوئی چیز نہیں
حديث :
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ ذَكَرُوا الشُّؤْمَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِنْ كَانَ الشُّؤْمُ فِي شَيْءٍ فَفِي الدَّارِ وَالْمَرْأَةِ وَالْفَرَسِ. {صحیح البخاری :5094النکاح ، صحیح مسلم :2225 الأدب }
ترجمه :
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نحوست کا ذکر آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو گھر میں ، عورت میں اور گھوڑے میں ہوتی۔ {صحیح بخاری ، صحیح مسلم }
تشریح :
زمانہ جاہلیت ، صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے اور نبیوں کے راستے سےبر گشتہ لوگوں کی ایک خاص صفت یہ رہی ہے کہ شیطان انھیں تو ھم پرستی اور ہوا پرستی کی پکڈنڈی پر ڈال دیتا ہے ، نتیجۃ ہر وہ چیز جو انکی خواہشات ، عادات اور نفس پرستی اور آزادہ روی کے سامنے رکاوٹ نبتی ہے وہ اسے منحوس قرار دیتے اور بدشگونی پر محمول کرتے ، یہی وجہ ہے کہ قوم فرعون ، قوم شعیب علیہ السلام اور سورۃ یس میں مذکوربستی والوں نے الہی تعلیمات سے بد شگونی لی اور اسے نحوست پر محمول کیا ، حالانکہ فی الواقع منحوس ، بدشگونی وبد فالی لینے کے لائق وہ لوگ خود تھے جنھوں نے نبیوں کی تعلیمات کو ٹھکر ایا اور رب العالمین کی رحمت کے مستحق بننے کے بجائے غضب الہی اور عذاب کے مستحق ٹھرے ۔۔ { قَالُوا إِنَّا تَطَيَّرْنَا بِكُمْ لَئِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَلَيَمَسَّنَّكُمْ مِنَّا عَذَابٌ أَلِيمٌ (188) قَالُوا طَائِرُكُمْ مَعَكُمْ أَئِنْ ذُكِّرْتُمْ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ (19)} {یس :18/19 } “جب بستی والوں کے پاس اللہ تعالی نے دورسولوں کو بھیجا اور انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا تو اللہ تعالی نے ان رسولوں کو تقویت دینے کیلئے ایک تیسرا رسول بھی بھیج دیا لیکن بستی والوں نے انکی ایک نہ مانی اور یہ کہکر دھمکیا ں دینے لگے کہ ” ہم تمھیں منحوس سمجھتے ہیں ، اگر تم باز نہ آے تو ہم تمھیں سنگ سار کردیں گے اور ہمارے ہاتھوں تمھیں درناک سزا ملے گی ۔ {رسولوں نے جواب دیتے ہوئے }کہا تمھاری نحوست تو تمھارے ساتھ لگی ہے ، اگر تمھیں نصیحت کی جاتی ہے {تو تم اسے نحوست سمجھتے ہو }بلکہ تم خو دہی حد سے گزرے ہوئے لوگ ہو ۔
یعنی تمھاری نحوست کی اصل وجہ وہ نہیں ہے جو تم سمجھ بیٹھے ہو بلکہ نحوست کی اصل وجہ تمھاری صراط مستقیم سے روگردانی اور رسولوں کی دعوت پر لبیک نہ کہنا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی تمھارے کرتوتوں کی وجہ سے تمھیں سزادے رہا ہے اور تمھا ری بد اعمالی ہی اصل نحوست ہے ۔
نبی کریم کی آمد سے قبل اہل جاہلیت کا یہی طریقہ تھا اور وہ بہت سی چیزوں کو منحوس تصور کرتے تھے اور یہ چیز انکے یہاں ایک عقیدہ کی شکل اختیار کر گئی تھی ، وہ بعض دنوں کو منحوس سمجھتے تھے ، بعض مہینوں کو منحوس تصور کرلیا تھا ، بعض چیزوں کو منحوس گرداناتھا حتی کہ کسی ایک ہی چڑیے کا دائیں جانب اڑنا تو باعث سعادت تھا اور اسی چڑیے کا بائیں طرف اڑنا نحوست بن جاتا تھا ۔
بد قسمتی سے یہی بد عقیدگی آج جاہل مسلمانوں کے اندر بھی پیدا ہوگئی ہے چنانچہ وہ بھی بعض مہینوں اور بعض دنوں کو منحوس اور بعض کوباعث برکت بنالیا ہے جبکہ یہ ساری چیزیں خواہ دن ومہینے ہوں ، ہوا ، موسم ہوں یا چڑیاں و چوپائے ، بذات خود ان میں کوئی نحوست نہیں ہے بلکہ یہ ساری مخلوق اللہ تعالی کی مسبحات میں سے ہیں اور اسی کے حکم کے تابع ہیں ، { وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ } دنیا کی ہر چیز اللہ کی تسبیح خواں ہے ۔
” نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں ۔ ۔ کوئی برا نہیں قدرت کے کار خانے میں ”
یہ تو ہو سکتا ہے کہ بعض چیزوں میں کوئی ایسی صفات پائی جائیں جو بعض لوگوں کے لئے تکلیف کا باعث بنیں ، یا سزا اور آزمائش کے طور پر اللہ تعالی اپنی کسی مخلوق کو ان پر مسلط کردے ، ایسی حالت میں اس چیز کو گالی دینا ،اس سے بد شگونی لینا یا اسے منحوس تصور کرنے کا معنی یہ ہے کہ گویا اللہ تعالی کے فیصلے پر اعتراض کیا جارہا ہے کیونکہ اسکا فاعل حقیقی اور اس میں موثر صرف اللہ تعالی کی ذات ہے ۔
زیر بحث حدیث میں اس بدعقیدگی کی اصلاح کی گئی ہے ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب نحوست و بدشگونی کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : یہ نحوست کوئی چیز نہیں ہے اگر نحوست کسی چیز میں ہوتی تو ان تین چیزوں میں ہوتی کیونکہعموما انسان کو بہت زیادہ نقصان انہی چیزوں کی وجہ سے اٹھانا پڑ تا ہے اور اس بارے میں الہی مشیت کے بعد انسان کی اپنی کوتاہی کا بڑا دخل ہوتا ہے کہ اس نے اپنے گھر ، گھر والوں اور سواری کے انتخاب میں اور انکے سنوارنے میں سمجھ اور ہشیاری سے کام نہیں لیا ، درج ذیل حدیث نبوی اسی بات کو اور واضح کر دیتی ہے ، تین چیزیں خوش بختی میں داخل ہیں اور تین چیزیں بدبختی کی علامت ہیں ، خوش بختی یہ ہےکہ {1} انسان کو ایسی بیوی ملے جسے وہ دیکھے تو خوش ہو اور اس سے دور رہے تو اسکے نفس اور اپنے مال کے بارے میں مطمئن رہے ، {2} سواری جو نرم اور سیدھی ہو جو اسے منزل تک بآسانی پہنچا دے{3} اور گھر کشادہ {ہوادار }ہواور زیادہ کمروں والا ہو ۔ اور بدبختی کی علامت یہ ہے کہ {1}بیوی ایسی کہ اسے دیکھے تو خوش نہ ہو ، بدزبان ہو اور جب گھر سے غائب ہو تو اسکے نفس اور اپنے مال کے بارے میں مطمئن نہ رہے ، {2} سواری کا جانور ایسا اڑیل ہو کہ مارنے لگے تو تھک جائے اور اسے اسکے حالت پر چھوڑ دے تو ساتھیوں سے پیچھے چھوڑ دے {3}اور گھر جو تنگ ہو اور کمرے کم ہوں ۔{مستدرک الحاکم:2/162 بروایت سعد بن ابی وقاص }
فائدے :
1 – سب سے بڑی نحوست یہ ہے کہ انسان اپنے خالق و مالک کا مطیع فرما بردار نہ ہو ۔
2 – کسی بھی مخلوق میں نحوست نہیں ہے ۔
3 – مسلمانوں کا یہ عقیدہ جہالت اور غیر قوموں کی تقلید کی سے پیدا ہوا ہے کہ وہ ماہ محرم و صفر وغیرہ کو منحوس سمجھتے ہیں ۔