وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم وصیت – قسط: 1/3

بسم اللہ الرحمان الرحیم

وفات سے قبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم

کی ایک اہم وصیت

قسط: 1/3

از قلم : شیخ مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ

{ناشر:مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (45) وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُنِيرًا (46) الاحزاب۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے قبل بہت ہی اہم وصیتیں فرمائیں ، کچھ باتوں کا امت کو حکم دیا اور کچھ باتوں سے منع فرمایا، بعض امور کی تاکید کی اور بعض کی تاکید اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک فرماتے رہے، اور بعض ایسے امور ہیں کہ انکی تاکید ووصیت باربار اور بڑے زوردار اندازمیں کرتے رہے، عام لوگوں بھی کو کی ،خاص لوگوں کوبھی کی، اپنے قریب ترین لوگوں کو بھی کی اور خاص خاص صحابہ کو بھی کی۔ انہیں وصیتوں میں ایک وصیت اس اہم امر سے متعلق بھی تھی جس سے دنیا میں شرک اور شخصیت پرستی کی بنیاد پڑی ، یعنی نبیوں اور ولیوں کا مزار اور انکی قبروں پر مسجدیں تعمیر کرنے کی ممانعت۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک اس امر کی کیا اہمیت تھی اسے درج ذیل نقاط سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔

عام حالات میں۔

چونکہ اس دنیا میں شرک کی بنیاد شخصیت پرستی اور قبر پرستی سے شروع ہوئی ہے اور اس دنیا میں بہت سی قومیں اللہ کی لعنت کی مستحق اسی وجہ سے ٹھہریں ،اسلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں برابر امت کو اس سے متنبہ کرتے رہے ، چنانچہ آپ نے فرمایا:

” قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ”

البخاري:437 الصلاة، مسلم: 530 المساجد، ابوداود: 3227 الجنائز، النسائي:4/95 بروايت ابوهريرة

اللہ کی لعنت ہو یہود پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبر کو مسجدیں بنا لیا تھا۔

یہی روایت مسند احمد 5/184٫185میں حضرت زید بن ثابت سے بھی مروی ہے، نیز ابن زنجویہ نے فضائل الصدیق میں حضرت ابوبکر الصدیق سے بھی روایت کیا ہے۔ دیکھئے علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب تحذیر الساجد ص28٫

ایک اور حدیث میں فرمان نبوی ہے: “سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ مِنْ شِرَارِ النَّاسِ مَنْ تُدْرِكُهُ السَّاعَةُ وَهُمْ أَحْيَاءٌ وَمَنْ يَتَّخِذُ الْقُبُورَ مَسَاجِدَََََ”.

صحيح ابن خزيمة:789، صحيح ابن حبان:6808، مسند احمد1/405، الطبراني الكبير:10413 بروايت ابن مسعود.

میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جن پر قیامت قائم ہوگی اور وہ لوگ جو قبروں کو مسجدیں بنا ئیں گے۔

اپنی وفات سے پانج دن قبل:

سَمِعْتُ النَّبِىَّ -صلى الله عليه وسلم- قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ بِخَمْسٍ وَهُوَ يَقُولُ « 0000أَلاَ وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ أَلاَ فَلاَ تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ إِنِّى أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ .

مسلم:532 المساجد، الطبراني الكبير:1686، بروايت جندب بن عبدالله البجلي.

حضرت جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا ، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔

یہی روایت مصنف ابن ابی شیبہ میں الحارث النجرانی سے بھی مروی ہے:عن عبد الله بن الحارث النجراني قال حدثني جدي قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن يموت بخمس وهو يقول : (ألا وإن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد ألا فلا تتخذوا القبور مساجد إني أنهاكم عن ذلك).

مصنف ابن ابي شيبة:7620،3/366.

حضرت عبد اللہ بن حارث نجرانی بیان کرتے ہیں کہ میرے دادا نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات سے پانچ دن قبل میں نے سنا آپ فرما رہے تھے۰۰۰۰۰ دھیان دینا تم سے پہلے جو لوگ تھے انہوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی قبروں کومسجد بنا لیا تھا ، تم قبروں کو مسجد نہ بنانا ، میں تمہیں اس سے منع کر رہا ہوں۔

بیماری کے بالکل آخری ایام اور آخری لحظات میں:

لَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَفِقَ يَطْرَحُ خَمِيصَةً لَهُ عَلَى وَجْهِهِ فَإِذَا اغْتَمَّ بِهَا كَشَفَهَا عَنْ وَجْهِهِ فَقَالَ وَهُوَ كَذَلِكَ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ يُحَذِّرُ مَا صَنَعُوا.

صحيح البخاري :435 الصلاة، صحيح مسلم: 531 المساجد، مسند احمد1/218و6/275، سنن النسائي 2/40.

حضرت عاٗشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر مرض موت کی کیفیت طاری تھی تو آپ اپنی چادر کو باربار چہرے پر ڈالتے ، جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر کو ہٹا دیتے ، اپنی اسی پریشانی کی حالت میں فرمایا: اللہ کی پھٹکار ہو یہود ونصاری پر کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا ،ٓاپ یہ فرما کر امت کو انکے کارناموں سے متنبہ کر رہے تھے۔

ایک اور حدیث میں ہے: عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ قَالَ آخِرُ مَا تَكَلَّمَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْرِجُوا يَهُودَ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ نَجْرَانَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ.

مسند احمد1/196، مسند ابويعلى:872،2/177.

حضرت ابو عبیدہ ؓ سے رواےت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری جو بات کہی تھی وہ یہ تھی کہ حجاز کے یہود اور اہل نجران کو جزیرہ عربیہ سے باہر نکال دینا اور یاد رکھو کہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالئے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ کی یہ حدیث بھی پڑھیں: علي بن أبي طالب يقول لقيني العباس فقال يا علي انطلق بنا إلى النبي ( صلى الله عليه وسلم ) فإن كان لنا من الأمر شئ وإلا أوصى بنا الناس فدخلنا عليه وهو مغمى عليه فرفع رأسه فقال لعن الله اليهود اتخذوا قبور الأنبياء مساجد، ثم قال: فلما رأينا ما به خرجنا ولم نسأله عن شئ .

تاريخ دمشق 42/426،الطبقات الكبرى4/28.دیکھئے تحذیر الساجد 27۔

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیماری کے ایام میں میری ملاقات حضرت عباسؓ سے ہوئی، انہوں نے مچھ سے کہا : اے علی نبیصلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلیں اور آپ سے پوچھ لیں کہ آپ کے بعدحکومتی معاملات میں ہمارا کچھ حصہ ہے کہ نہیں ، اگر نہیں ہے تو آپ ہمارے بارے میں لوگوں کو کچھ وصیت کردیں، چنانچہ ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اس وقت آپ کی کیفیت یہ تھی کہ آپ پر غشی طاری تھی ، پھر آپ نے اپنا سر اٹھاکر فرمایا : یہود پر اللہ کی لعنت ہو جنھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔ پھر جب ہم نے آپ کی یہ کیفیت دیکھی تو ہم باہر نکل آئے اور کچھ نہیں پوچھا۔

ازواج مطہرات کی خاص مجلس میں:

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمَّا اشْتَكَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَتْ بَعْضُ نِسَائِهِ كَنِيسَةً رَأَيْنَهَا بِأَرْضِ الْحَبَشَةِ يُقَالُ لَهَا مَارِيَةُ وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَأُمُّ حَبِيبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَتَا أَرْضَ الْحَبَشَةِ فَذَكَرَتَا مِنْ حُسْنِهَا وَتَصَاوِيرَ فِيهَا فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ أُولَئِكِ إِذَا مَاتَ مِنْهُمْ الرَّجُلُ الصَّالِحُ بَنَوْا عَلَى قَبْرِهِ مَسْجِدًا ثُمَّ صَوَّرُوا فِيهِ تِلْكَ الصُّورَةَ أُولَئِكِ شِرَارُ الْخَلْقِ عِنْدَ اللَّهِ( يوم القيمة).

صحيح البخاري:427 الصلاة، صحيح مسلم: ، مسند احمد6/51.

حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب بیمار ہوئے تو آپ کی بعض بیویوں نے حبشہ کے ماریہ نامی ایک کنیسہ کا ذکر کیا جسے انہوں نے وہاں دیکھا تھا ، کیونکہ حضرت ام سلمہ ؓاور ام حبیبہ ؓحبشہ کی زیارت کر چکی تھیں ، لہذا انہوں نے اس کنیسہ کی خوبصورتی اور اس میں موجودتصویروں کا ذکر کیا تو آپ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا:یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے یہاں جب کوئی نیک آدمی مر جاتا تو اسکی قبر پر مسجد تعمیر کر لیتے تھے ، اللہ تعالی کے نزدیک سب سے برے یہی لوگ ہیں۔

صحابہ کو خصوصی تلقین:

عن أسامة ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه الذي مات فيه : « أدخلوا علي أصحابي » فدخلوا عليه وهو متقنع ببردة معافري فقال : « لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم.

مسند احمد5/204،الطبراني الكبير و مسند الطيالسي2/113 ترتيبه امام نورالدین الہیثمی لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں المجمع 2/72۔

حضرت اسامہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے اس مرض کے ایام میں جسمیں آپ کی وفات ہوئی فرمایا : میرے صحابہ کو میرے پاس اندر آنے کی اجازت دو ، چنانچہ لوگ آپ کے پاس آئے ،اس وقت آپ ایک معافری چادر سے اپنے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا: یہود پر اللہ تعالی کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیا تھا۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی ایک بیان پڑھئے:

قال لي النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه ائذن للناس علي فأذنت فقال لعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد ثم أغمي عليه فلما أفاق قال يا علي ائذن للناس علي فأذنت للناس عليه فقال لعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مسجدا قالها ثلاثا في مرضه.

مسند البزار2/219 رقم الحديث:438.

جس مرض میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا انتقال ہوا آپ نے مجھے حکم دیا کہ لوگوں کو میرے پاس آنے کی اجازت دو، میں نے اجازت دی تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبی کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی اور جب آپ کو افاقہ ہوا توآپ نے پھر فرمایا : کہ لوگوں کو میرے پاس آنے کی اجازت دو، میں نے اجازت دی تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالی کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبی کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا تھا، پھر آپ پر غشی طاری ہو گئی ۔اسی طرح آپصلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار فرمایا۔

ایک قدم اور آگے۔

آپ صلی اللہ علیہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی قبر سے متعلق بھی تاکیدی حکم فرمایا:

لا تتخذوا قبري عيدا ولا تجعلوا بيوتكم قبورا وحيثما كنتم فصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني.

مسند 2/367،سنن ابوداود:2042 المناسك.

میری قبر پر میلہ نہ لگانا اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنا لینا اور جہاں کہیں بھی رہو وہیں سے مجھ پر درود بھیجنا اس لئے کہ تمھارا درود مجھ تک پہنچے گا۔

اسی معنی میں ایک اور حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:

عن علي بن حسين أنه رأى رجلا يجيء إلى فرجة كانت عند قبر النبي صلى الله عليه و سلم فيدخل فيها فيدعو فنهاه فقال : ألأ أحدثكم حديثا سمعته من أبي عن جدي عن رسول الله صلى الله عليه و سلم ؟ قال : لا تتخذوا قبري عيدا ولا بيوتكم قبورا فإن تسليمكم يبلغني أينما كنتم .

مسند ابويعلى:469، 1/361

علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی قبر کے پاس ایک سوراخ کے پاس آکر اس میں داخل ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے ، چنانچہ اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا: کیا میں تمہیں وہ حدیث نہ سناوں جو میں نے اپنے باپ سے سنی ہے اور میرے باپ نے میرے دادا سے سنی ہے کہ نبیصلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری قبر کو عید [میلہ گاہ] نہ بناو اور جہاں کہیں بھی رہو مجھ پر سلام پڑھو تمھارا سلام مجھ تک پہنچ جائے گا۔

نبیصلی اللہ علیہ و سلم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا کیونکہ آپکو اس امت کے جاہلوں کی جہالت سے خطرہ لاحق تھا اسلئے آپ نے اللہ تعالی سے دعا بھی کی کہ آپکی قبر کے ساتھ وہ سب کچھ نہ کیا جا سکے جو دیگر نبیوں کی قبروں کے ساتھ ہوا تھا: :

اللهم لا تجعل قبرى وثنا لعن الله قوما اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد.

مسند احمد2/246، مسند ابويعلى .

اے اللہ ! میری قبر کو بت نہ بنا دے[ کہ اسکی پوجا کی جائے] اللہ کی لعنت ہو اس قوم پر جس نے اپنے نبیوں کی قبر وں کو مسجدیں بنا لیا تھا۔ .

نیز اسی معنی میں ایک حدیث حضرت ابوسعید الخدری سے بھی مروی ہے:

“اللهم إني أعوذ بك أن يتخذ قبري وثناً فإن الله تبارك وتعالى اشتد غضبه على قوم اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد”.

مسند البزار( كشف الأستار:440، 1/220.

اے اللہ! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس بات سے کہ میری قبر کو بت بنا لیاجائے ،اسلئے کہ اللہ تعالی کا غضب اس قوم پر بڑا سخت ہے جو اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لئے ہیں۔

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل۔

صحابہ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اہم وصیت کو اچھی طرح سمجھا اور اپنی دعوتی وجہادی زندگی میں اس پر عمل پیرا رہے اور اس سلسلے میں انھوں نے بہترین نقوش چھوڑے انکے آثار علامہ البانی رحمہ اللہ کی نادر کتاب تحذیر الساجد ص118 تا 132 اور ایک سعودی عالم عبدالعزیز الراجحی کی کتاب مجانبۃ اھل الثبور میں دیکھا جا سکتا ہے، علی سبیل المثال :

عَنْ أَبِى الْهَيَّاجِ الأَسَدِىِّ قَالَ قَالَ لِى عَلِىُّ بْنُ أَبِى طَالِبٍ أَلاَّ أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- أَنْ لاَ تَدَعَ تِمْثَالاً إِلاَّ طَمَسْتَهُ وَلاَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلاَّ سَوَّيْتَهُ.

صحيح مسلم 968 الجنائز، سنن ابوداود: سنن النسائي: سنن الترمذي: مسند احمد1/96،

حضرت ابو ہیاج الاسدی بیان کرتے ہیں حضرت علی ؓ نے مجھ سے فرمایا :کیا میں تمہیں اس کام کی لئے نہ بھیجوں جس کام کیلئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھیجا تھا؟ کوئی بھی مجسمہ اور تصویر بغیر مٹائے نہ چھوڑنا اور کسی بھی اونچی قبر کو بغیر برابر کئے نہ رہنے دینا۔

اپنےوقت میں اہل بیت نبوی کے سردار حضرت علی زین العابدین رحمہ اللہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آکر کھڑا ہوتا ہے اور دعا کرتا ہے یہ دیکھ کر اسے اپنے پاس بلایا اور فرمایا : کیا میں تجھے وہ حدیث نہ سناوں جو میں نے اپنے والد{ حضرت حسین} سے سنی ہے اور میرے والد نے میرے دادا سے اور میرے دادا نے میرے نانا صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے کہ آپ نے فرمایا:

(لا تتخذوا قبري عيدا ولا بيوتكم قبورا وصلوا علي فإن صلاتكم تبلغني حيثما كنتم).

مصنف ابن ابي شيبة 3/365، رقة:7616 ومسند ابويعلى1/361،رقم:469.

میری قبر کو عید[ میلہ گاہ] نہ بناو اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناو اور میرے اوپر درود بھیجو تم جہاں کہیں بھی ہوگے تمہارا درود مجھ تک پہنچ جائے گا۔

2—ااہل بیت نبوی کے ایک اور ہونہار عالم حضرت حسن بن حسن بن علی نے