چاند،روزہ،عید اور اجتماعیت/حديث نمبر :220

بسم اللہ الرحمن الرحيم

حديث نمبر :220

خلاصہء درس : شيخ ابوکليم فيضي حفظہ اللہ

بتاريخ :12/13/ شعبان 1433 ھ، م 03/02،جولائي 2012م

چاند،روزہ،عید اور اجتماعیت

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ” الصَّوْمُ يَوْمَ تَصُومُونَ وَالْفِطْرُ يَوْمَ تُفْطِرُونَ وَالْأَضْحَى يَوْمَ تُضَحُّونَ ” .

( سنن الترمذي :697، الصوم – سنن ابو داود :2324، الصوم – سنن ابن ماجه : 1660 ، الصيام ) .

ترجمہ : حضرت ابو ہريرہ رضي اللہ عنہ سے روايت ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ و سلم نے ارشاد فرمايا : روزہ کا دن وہ ہے جس دن تم سب لوگ روزہ رکھو ، اور فطر [ عيد ] کا دن وہ ہے جس دن تم سب لوگ افطار کرو [ عيد مناؤ ] اور قرباني کا دن وہ ہے جس دن تم سب لوگ قرباني کرو ۔

[ سنن الترمذي ، سنن ابو داود ، سنن ابن ماجہ ] ۔

تشريح : بہت سے معاملات ميں اسلام نے اجتماعيت کو ملحوظ رکھا ہے بلکہ اسے ضروري قرار ديا ہے جيسے ، جمعہ ، عيدين ، روزہ اور قرباني و حج وغيرہ ، اس معني ميں کہ انفرادي طورپر کسي بھي شخص کو عيد منانے تنہا جمعہ کي نماز پڑھنے يا رمضان کے روزے رکھنے اور عرفہ کا دن منانے کي اجازت نہيں ہے بلکہ اس سلسلے ميں اجتماعيت کو مد نظر رکھا جائے گا ، ان ميں انفرادي فيصلہ کرنے کا کسي کو اختيار نہيں ہے بلکہ تمام اہل شہر ، اہل ملک اور مسلمانوں کي جماعت کے اجتماعي فيصلے کو مد نظر رکھا جائے گا علي سبيل المثال اگر کوئي شخص شوال کا چاند ديکھتا ہے ، اسے اپنے ديکھے پر يقين بھي ہے ليکن چونکہ اس معاملے ميں اس کا کوئي ساتھي نہيں ہے جو چاند ديکھنے ميں اس کي تائيد کرے نتيجہ حاکم وقت ، قاضي شہر يا عام مسلمان اس کي رؤيت کي تصديق نہيں کرتے تو اس کے لئے يہ جائز نہيں ہے کہ وہ اکيلے ہي عيد منالے بلکہ اسے مسلمانوں کي جماعت کے ساتھ ہي عيد مناني ہوگي ، اگر قاضي يا حاکم يا عام مسلمان اس کي شہادت رد کرنے ميں اجتہاد سے کام لئے اور ان سے غلطي ہوگئي تو اس پر ان کي کوئي گرفت نہيں ہے چنانچہ علامہ ابو الحسن سندھي رحمہ اللہ اس حديث کي شرح ميں لکھتے ہيں ” بظاہر اس حديث کا معني يہ معلوم ہوتا ہے کہ ان معاملات ميں افراد کا کوئي دخل نہيں ہے اور نہ ہي کسي کو يہ حق حاصل ہے کہ ان امور ميں تفرد سے کام لے بلکہ يہ تمام امور امام وقت اور مسلمانوں کي جماعت کے حوالے ہيں ، بنا بريں اگر کسي شخص نے چاند ديکھا ليکن امام وقت نے اس کي گواہي رد کردي تو اس کے اوپر واجب ہے کہ اس بارے ميں مسلمانوں کے جماعت کي پيروي کرے ” ۔

حقيقت بھي يہ ہے کہ ايسا کرنا ہماري سيدھي سادي آسان شريعت کے موافق اور اس کي روح اجتماعيت کے لائق بھي يہي ہے کہ ہم ہر ايسي چيز کا اہتمام کريں جو امت کو ايک صف ميں لا کھڑا کرے اور اور ايسے شخصي و انفرادي فيصلے سے دور رہيں جو انہيں ايک دوسرے سے دور کريں ، چنانچہ شريعت اجتماعي عبادتوں جيسے عيد ، روزہ ، نماز يا باجماعت وغيرہ کے بارے ميں کسي بھي شخصي رائے کا اعتبار نہيں کرتي خواہ وہ صحيح ہي کيوں نہ ہو ، کيا آپ يہ نہيں ديکھتے کہ صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ عليہم اجمعين ايک دوسرے کے پيچھے نماز پڑھتے تھے حالانکہ ان ميں سے بعض کا خيال تھا کہ عورت کو چھونے ، شرمگاہ کو ہاتھ لگانے اور خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور بعض دوسروں کے نزديک يہ چيزيں وضو توڑنے والي نہيں تھيں ، اسي طرح بعض صحابہ سفر ميں نمازيں قصر کرکے پڑھتے تھے اور بعض پوري پڑھتے تھے ، ان کا اس قسم کا باہمي اختلاف اس بارے ميں رکاوٹ نہيں بنتا تھا کہ وہ لوگ ايک ہي امام کے پيچھے اکٹھے نماز پڑھيں اور ان کي نماز ميں کوئي خلل واقع نہ ہو ، کيونکہ وہ اچھي طرح جانتے تھے کہ دين ميں گروپ بندي اور فرقہ بازي بعض مسائل ميں باہمي اختلاف سے بہت ہي برا کام ہے حتي کہ ان ميں سے بعض کے يہاں معاملہ اس حدتک پہنچا کہ مني جيسے بڑے اجتماع ميں امام وقت کي رائے سے مخالف اپني رائے پر عمل کرنا مطلقا چھوڑ ديا اور ايسا صرف اسي خوف سے کہ اپني رائے پر عمل کرنے کي وجہ سے اختلاف و شر پيدا ہوگا ۔ چنانچہ سنن ابو داود ميں ہے کہ حضرت عثمان غني رضي اللہ عنہ نے مني ميں چار رکعت نماز پڑھائي تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ نے ا ن کے اس عمل پر نکير کرتے ہوئے فرمايا : ميں نے نبي صلي اللہ عليہ و سلم کے ساتھ ابو بکر رضي اللہ عنہ کے ساتھ ، حضرت عمر رضي اللہ عنہ کے ساتھ اور حضرت عثمان رضي اللہ عنہ کے ساتھ بھي ان کے ابتدائي دور خلافت ميں دو دو رکعتيں قصر پڑھي ہيں ليکن آخر ميں وہ [ حضرت عثمان ] پوري نماز پڑھنے لگے ، پھر تمہاري بھي رائيں مختلف ہوگئيں يعني تم ميں سے بعض قصر پڑھتے ہيں اور بعض پوري نماز پڑھتے ہيں اور ميں تو چاہتا ہوں کہ ميري دو ہي رکعتيں جو اللہ کے نزديک مقبول ہوجائيں وہ ان چاررکعتوں سے بہتر ہيں ، يہ فرمانے کے بعد جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضي اللہ عنہ نے چار رکعت نماز پڑھي تو ان سے کہا گيا کہ آپ عثمان رضي اللہ عنہ پر عيب لگاتے ہيں پھر بھي چار رکعتيں ہي پڑھتے ہيں ؟ تو انہوں نے جواب ديا : اختلاف کرنا ميرا کام ہے ۔

[ سنن ابو داود : 1960 ، المناسک ] ۔

اسي طرح کا ايک اثر حضرت ابو ذر رضي اللہ عنہ سے مروي ہے ۔

[ احمد :5/155 ] ۔

لہذا چاہئے کہ اس حديث اور اس ضمن ميں مذکور اثر ميں وہ حضرات غور کريں جو مسلمانوں کي نمازوں [ جماعت ] ميں اختلاف پيدا کرتے ہيں اور مسجدوں کے اماموں کي اقتدا نہيں کرتے خاص کر رمضان المبارک ميں نمازوں کے اندر ، ان کي دليل يہ ہوتي ہے کہ وتر کا يہ طريقہ ان کے مذہب کے خلاف ہے اور بعض وہ حضرا ت بھي خصوصي غور کريں جو فلکيات سے متعلق علم کا دعوي کرتے ہيں اور مسلمانوں کے جماعت سے علحدگي کي پراہ کئے بغير اپني رائے کو اہميت ديکر عام مسلمانوں سے پہلے يا ان کے بعد اکيلے روزہ کي ابتداء کرتے اور عيد مناتے ہين ، ان تمام لوگوں کو چاہئے کہ جو بات ہم نے ذکر کي ہے اس پر غور کريں بہت ممکن ہے کہ جس جہالت وغرور کے مرض ميں وہ مبتلا ہيں اس کا کچھ علاج ہوسکے اور اپنے مسلمان بھائيوں کے ساتھ مل کر ايک ہي صف ميں کھڑے ہوجائيں کيونکہ جماعت پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔

[ سلسلہ الاحاديث الصحيحہ للالباني :1/444-445] ۔

راقم سطور بھي يہي کہتا ہے کہ ہمارے وہ بھائي جو ہند و پاک ميں ہر سال رمضان ، عيد اور بقر عيد و حج کے موقعہ پر مسلمانوں ميں اختلاف کي صورت پيدا کرنے کي کوشش کرتے ہيں يہ کہتے ہوئے کہ چونکہ سعوديہ ميں رمضان يا عيد کے چاند کا ثبوت ہوگيا ہے لہذا ہميں بھي روزہ شروع کردينا يا افطار کردينا چاہئے کيونکہ ايک ہي جگہ کي رؤيت ساري دنيا کے لئے کافي ہے ، مزيد يہ کہ يہ حضرات مسلمانوں کي جماعت کي پرواہ کئے بغير اکيلے ہي روزہ رکھنا شروع کرديتے اور خود اپنے ہي کسي گھر ميں عيد کي نماز پڑھ ليتے ہيں اور پھر سيدھے سادے مسلمانوں کو تنگ کرنے کے لئے عيد رمضان کي مبارک بادي دينا شروع کرديتے ہيں جب کہ اولا تو وحدت رويت کا مسئلہ علماء کے نزديک ايک اختلافي مسئلہ ہے ثانيا جو علماء اس کے قائل ہيں جيسے علامہ الباني رحمہ اللہ جن کا ايک لمبا اقتباس بھي نقل کيا گيا اور امام عصر علامہ ابن باز رحمہ اللہ وغيرہ علماء اس بات کي اجازت قطعا نہيں ديتے کہ مسلمانوں کي جماعت سے الگ ہٹ کر رمضان کي ابتدا کي جائے يا عيد منائي جائے ۔

فوائد :

1- مسلمانوں کے باہمي اتفاق کي وہ اہميت ہے کہ اس کے لئے اگر کسي سنت کو بھي چھوڑنا پڑے تو چھوڑ ديا جائے ۔

2- اجتماعي امور ميں خطا معاف ہے ۔

3- کسي عيد کے موقعہ پر اگر چاند نظر نہ آيا اور مسلمانوں نے تيسويں دن کا روزہ رکھ ليا اور بعد ميں پتہ چلا کہ مہينہ تو انتيس دن کا تھا تو اس ميں کوئي حرج نہيں ہے ۔

4- ہر جگہ کے مسلمانوں کو وہاں کي رائے عامہ کے مطابق عيد و بقر عيد اور رمضان منانا چاہئے ۔

ختم شدہ