بسم اللہ الرحمن الرحیم
حديث نمبر :100
خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط
بتاریخ : 20/21/ ذو الحجہ 1430 ھ، م 08/07 دسمبر 2009
بہترین و بدترین انسان
عَنْ أَبِي بَكْرَة رضي الله عنه أَنَّ رَجُلاً، قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَىُّ النَّاسِ خَيْرٌ قَالَ ” مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَحَسُنَ عَمَلُهُ ” . قَالَ فَأَىُّ النَّاسِ شَرٌّ قَالَ ” مَنْ طَالَ عُمُرُهُ وَسَاءَ عَمَلُهُ ” .
( سنن الترمذي :233، الزهد – سنن الدارمي :2/308 – مسند أحمد :5/40 )
ترجمہ : حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون شخص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو، اس نے دوبارہ سوال کیا : اور سب سے برا کون شخص ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل برا ہو ۔ { سنن الترمذی ، سنن الدارمی ، مسند احمد } ۔
تشریح : اس دنیا میں جس شخص کے پاس جتنا زیادہ سرمایہ ہو اور اسے حکمت سے صحیح تجارت میں لگائے اور اسے وقت بھی کافی ملے تو اسے اسی اعتبار سے فائدہ بھی حاصل ہوگا ، صرف سرمایہ زیادہ ہونا کافی نہیں ہے ، کیونکہ اگر سرمایہ کو صحیح جگہ نہ لگایا گیا ، نہ ہی تجارت کے لئے بھرپور موقعہ ملا تو اس سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا ، بعینہ یہی مثال انسان کےعمر کی ہے جو اس کا اصل سرمایہ ہے ، جو شخص اپنی عمر عزیز کو صحیح تجارت میں لگائے اور اسے اپنے رب کے ساتھ تجارت کا کافی موقعہ بھی ملے تو یہ اس کی بڑی خوش نصیبی ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کے لئے یہ سعادتمندی ہے کہ اس کی عمر لمبی ہو اور اللہ تعالی انابت کی توفیق بخشے { مسند احمد } ۔
یہی چیز زیر بحث حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے اور اس شخص کو سب سے بہتر قرار دیا گیا ہے جس کو ایمان کی دولت حاصل رہی ، اسے عمل صالح اور توبہ و انابت کی نعمت ملی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی عمر بھی لمبی رہی ، کیونکہ ایسا شخص جتنے دن زندہ رہے گا وہ نیک اعمال کے ذریعہ اللہ تعالی کا اتنا ہی زیادہ قرب حاصل کرتا رہے گا ۔
جس کی سب سے واضح دلیل عہد نبوی کا وہ واقعہ ہے جسے حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بلی کے دوشخص خدمت نبوی میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے اور مدینہ منورہ میں سکونت پذیر ہوگئے ، کچھ دنوں کے بعد ان میں کا ایک شخص جو بہت ہی عبادت گزار تھا کسی غزوہ میں نکلا اور شہید ہوگیا اور دوسرا ساتھی مزید ایک سال زندہ رہا اور بستر پر اس کی وفات ہوئی ، حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے ان دونوں کو خواب میں دیکھا کہ جو شخص اپنے بستر پر مر ا ہے وہ شہید سے پہلے جنت میں داخل ہورہا ہے ، مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا اور جب اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا : اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ کیا یہ شخص جو بستر میں مرا ہے شہید کے بعد ایک سال تک مزید زندہ نہیں رہا ، کیا اس شخص نے رمضان کا مہینہ نہیں پایا ، کیا اس نے اتنی رکعتیں [چھ ہزار کے قریب ] فرض اور اتنی رکعتیں نفل کی نہیں پڑھی ؟ ان دونوں کے درمیان آسمان و زمین سے زیادہ فاصلہ ہے { سنن ابن ماجہ ومسند احمد }
یہ واقعہ زیر بحث حدیث کی تشریح ہے کہ نیک عمل کرنے والا شخص جتنی لمبی عمر پائے وہ اس کے لئے بہتر ہے ، اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کی دعا اور تمنا سے منع فرمایا ہے کیونکہ اگر وہ شخص ایمان کے ساتھ نیک ہے تو مزید زندگی اس کے لئے قرب الہی ، جنت میں بلند درجات کے لئے وقت فراہم کررہی ہے اور اگر ایمان کے ساتھ ساتھ وہ برے اعمال کا مرتکب ہے تو رحمت الہی سے یہ بعید نہیں ہے کہ اسے موت سے قبل توبہ کی توفیق مل جائے اور اگر موت آگئی تو نہ ہی وہ نیک عمل کرکے بلند درجات حاصل کرسکے گا اور نہ ہی اپنے گناہوں سے تائب ہوکر اپنے لئے رب غفور کے دامن عفو میں جگہ بنا سکا ۔
برخلاف اس کے جو شخص لمبی عمر تو پاتا ہے لیکن برے اعمال ہی کرتا رہتا ہے ، نہ اسے ایمان کی دولت ملی ہے اور اگر ملی بھی ہے تو اسے لہو ولعب میں صرف کررہا ہے تو اس سے بڑا بد نصیب اور کون شخص ہوگا کہ اس کو سرمایہ تو پورا ملا اور سرمایہ کو تجارت میں لگانے کے لئے موقعہ بھی میسر آیا لیکن اس نے سرمایہ کو ضائع کردیا ، سچ فرمایا اللہ تعالی نے : [وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ] {آل عمران:178}
” کافر لوگ ہماری دی ہوئی مہلت کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں یہ مہلت تو اس لئے کہ وہ گناہوں میں اور بڑھ جائیں ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہے ” ۔
ساتھیو ! سال رواں کے بالکل آخری دن ہیں ، ہمیں یہ تو خوشی ہے کہ ہم نے یہ سال بخیر وعافیت گزار لیا ، آئندہ سال کے خیر کے بھی امید وار ہیں ، ہم اپنے آپ کو ان لوگوں سے خوش نصیب سمجھ رہے ہیں جو سال رواں اس دنیا سے رخصت ہوگئے ، لیکن کیا اس بات کا محاسبہ کیا کہ پچھلے سال کے مقابل اس سال ہمارے نیک عمل میں کتنا اضافہ ہوا ، اور نئے سال کا استقبال کس پروگرام سے کررہے ہیں ؟ سچ کہا ہے کسی بزرگ نے : "تمہارا آنے والا کل اگر گزشتہ کل کے برابر ہے وہ دن دھوکے کا ہے ، آنے والا کل گزشتہ کل سے برا ہے وہ دن ملعون ہے ، جو آنے والے کل میں تم نے کوئی نیا عمل نہیں کیا تو وہ خسارے کا دن ہے اور جو دن خسارے کا ہو اس دن سے پہلے مر جانا بہتر ہے ” { لطائف المعارف } ۔
فوائد :
- نیک عمل کے ساتھ لمبی عمر اللہ تعالی کا بہت بڑا فضل ہے ۔
- لمبی عمر کے ساتھ جس کے عمل برے ہوں وہ بڑا بدبخت انسان ہے ۔
- ایک مومن کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ موت کی دعا کرے ۔
ختم شدہ