سنن راتبہ/حديث نمبر :207

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حديث نمبر :207

خلاصہء درس : شیخ ابوکلیم فیضی الغاط

بتاریخ :3/4/ جمادی الاول 1433 ھ، م 27/26،مارچ 2012م

سنن راتبہ

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ الْمُزَنِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ” بَيْنَ كُلِّ أَذَانَيْنِ صَلَاةٌ ثَلَاثًا لِمَنْ شَاءَ ” .

( صحيح البخاري :624 ، الأذان – صحيح مسلم :838 ، صلاة المسافرين )

ترجمہ :حضرت عبد اللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : ہر دو آذانوں کے درمیان نماز ہے ، یہ بات آپ نے تین بار دہرائی – تیسری بار فرمایا : جو چاہے ۔

{ صحیح بخاری و صحیح مسلم } ۔

تشریح : اللہ تبارک وتعالی نے فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ اسی کی جنس سے کچھ نفل عبادات بھی مشروع قرار دی ہے ، جن کی حیثیت ادائیگی میں فرائض و واجبات کی تو نہیں ہے ، البتہ اس ناحیے سے وہ بہت اہم ہیں کہ ،

اولا : تو قیامت کے دن فرائض میں اگر کچھ کوتاہی رہ گئی ہے تو ان کی تکمیل انہیں نوافل سے کی جائے گی ، جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے بندوں کے جس عمل کا حساب لیا جائے گا وہ ان کی نماز ہے ، اگر وہ درست ہوئی تو یقینا و ہ کامیاب اورسرخ رو ہوگا اور اگر نماز خراب ہوئی تو ناکام و نامراد ہوگا ، پھر اگر فرائض میں کچھ کوتاہی رہی ہو تو اللہ عزو جل فرمائے گا دیکھو کیا میرے بندے کے نامہ­ٴ اعمال میں کچھ نوافل ہیں کہ اس کے ذریعہ فرائض کی کمی پوری کی جاسکے ؟ پھر اس کے سارے اعمال کا حساب اس طریقے پر ہوگا

{ سنن الترمذی } ۔

ثانیا : رضائے الہی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ اس کے مقرر کردہ فرائض کی ادائیگی ہے پھر رضائے الہی میں سبقت لے جانے اور الہی قربت کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ نوافل ہیں ، جیسا کہ حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے : اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے حتی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ۔۔۔ الحدیث { صحیح بخاری :6502 } ۔

ثالثا : نوافل کا اہتمام رب کریم سے محبت اور اس سے تعلق قلبی کی دلیل ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہوتا ہے ۔

{ صحیح مسلم :482 } ۔

لہذا ہر مومن بندہ کو چاہئے کہ نوافل میں خاص کر وہ نوافل جو فرائض کے آگے پیچھے ہیں کوتاہی نہ کرے اور یہ کہہ کر پیچھا نہ چھڑائے کہ یہ فرائض میں داخل نہیں ہے اور نہ ہی ان کے چھوڑنے میں کوئی گناہ ہے ۔

آج کی مجلس میں ہم یہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ فرض نمازوں کے آگے پیچھے بطور نفل کے کتنی رکعتیں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہیں کیونکہ اس بارے میں لوگ افراط و تفریط کے شکار ہیں کچھ لوگوں نے تو ان نوافل کی تعداد اس قدر بڑھا دی ہے اور بدقسمتی سے اسے اس وقت کی فرض نما ز کا ایسا حصہ بنادیا ہے کہ اس کے ڈر سے بہت سے لوگ فرض نماز بھی چھوڑ دیتے ہیں دوسری طرف کچھ لوگ ان نوافل کی ادائیگی میں اس قدر کوتاہ ہیں کہ شب و روز میں مشکل سے آٹھ دس رکعت کی ادائیگی بھی ان پر بھاری پڑتی ہے ، بلکہ بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ مسجد کے باہر کھڑے ہوکر اقامت کا انتظار کرتے رہیں گے لیکن مسجد میں داخل ہوکر دو رکعت نماز ان کے اوپر بھاری پڑتی ہے ۔

زیر بحث حدیث سے پتا چلتا ہے کہ کوئی بھی فرض نماز ہو اس سے قبل کم از کم دو رکعت نماز بطور سنت کے پڑھنا ثابت ہے خواہ اس کی حیثیت سنت راتبہ کی ہو جیسے دو رکعت فجر سے قبل یا اس کی حیثیت سنت غیر راتبہ کی ہو جیسے مغرب سے پہلے کی دو رکعت ، اسی طرح جن نمازوں سے پہلے کسی سنت کا ذکر نہیں ہے ، اس حدیث کی روشنی میں اس سے قبل کم از کم دو رکعت سنت غیر راتبہ پڑھنا مسنون ہوگا جیسے عشاء سے قبل دو رکعت ، نیز اگر احادیث نبویہ پر نظر کرتے ہیں تو وتر کے علاوہ صحیح سندوں سے فرض نمازوں کے آگے پیچھے درج ذیل سنتوں کا ذکر ملتا ہے :

فجر سے قبل دو رکعت ، ظہر سے قبل چار رکعت ، ظہر کے بعد دو رکعت یا چار رکعت ، عصر کے قبل چار رکعت یا دو رکعت ، مغرب سے قبل دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اور عشا کےبعد دو رکعت سنت ، اس تفصیل کی دلیل درج ذیل حدیثیں ہیں :

[۱] نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو مسلمان بندہ روزانہ بارہ رکعتیں سنت پڑھے گا تو اللہ تعالی اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادے گا ۔

{ صحیح مسلم } ۔

چار رکعت ظہر سے قبل ، دو رکعت ظہر کے بعد ، دو رکعت مغرب کے بعد ، دو رکعت عشاء کے بعد اور دو رکعت فجر سے قبل ۔ { سنن الترمذی ، بروایت ام حبیبہ } ۔ یہ بارہ رکعتیں اہل علم کے نزدیک سنت موکدہ یا سنن راتبہ کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔

[۲] نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص ظہر سے قبل چار رکعت اور ظہر کے بعد چار رکعت کی حفاظت کرے گا تو اللہ تعالی اس کے اوپر جہنم کی آگ کو حرام فرمادے گا ۔

{ سنن ابو داود : 1269، سنن التر مذی :427 ، بروایت عائشہ }

یعنی ظہر کے بعد دو رکعت راتبہ اور دو رکعت غیر راتبہ ۔

[۳] نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی اس شخص پر رحم فرمائے جو عصر کی نماز سے قبل چار رکعت پڑھتا ہے ۔

{ سنن ابو داود : 1271 ، سنن النسائی :430 ، بروایت ابن عمر } ۔

[۴] نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے عصر سے قبل چار رکعت اور دو رکعت پڑھنا دونوں ثابت ہے ۔

{ سنن الترمذی :429 ، سنن ابو داود : 1272 } ۔

[۵] رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کی نماز پڑھے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کے بعد چار رکعات پڑھے ۔

{ صحیح مسلم : 881 ، بروایت ابو ہریرہ } ۔

[۶] آپ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز پڑھا کر گھر تشریف لے جاتے اور گھر میں دو رکعت پڑھتے تھے ۔

{ صحیح مسلم :882 ، بروایت عائشہ } ۔

۔۔ میرے علم کے مطابق ان سنتوں کے علاوہ فرض نمازوں کے آگے پیچھے کوئی اور سنت کسی صحیح حدیث میں وارد نہیں ہے ۔

فوائد :

۱- فرض نماز کی اذان کے بعد اقامت سے قبل کم از کم دو رکعت سنت ثابت ہے جس کی حکمت شاید یہ ہے کہ چونکہ اذان و اقامت کے درمیان کی دعا رد نہیں کی جاتی لہذا بندہ سے مطالبہ ہے اس مبارک وقت میں نماز جیسی مبارک عبادت میں مشغول رہے ۔ ۔

۲- ہر فرض نماز کی اذان و اقامت کے درمیان اتنا فاصلہ ضرور رکھنا چاہئے کہ اس میں دو رکعت نماز پڑھی جاسکے ۔ ۔

۳- جمعہ کی نماز اس عام حکم سے مستثنی ہے کیونکہ جمعہ کی اذان اور اقامت کے درمیان امام خطبہ دیتا ہے جس کا سننا واجب ہے ۔ ۔۔

۴- البتہ اگر کوئی شخص مسجد میں اس وقت داخل ہو جب خطبہ ہورہا ہو تو ہلکی دو رکعت نماز پڑھے بغیر نہ بیٹھے ۔

{ صحیح بخاری : 931 ، صحیح مسلم : 875 } ۔

ختم شدہ